2018ء میں جرمن فٹ بال کا زوال، تبصرہ
24 دسمبر 2018جرمن فٹ بال ایسوسی ایشن ( ڈی ایف بی) کے ٹیم منیجر اولیور بیئرہوف نے رواں برس کے اختتام پر کہا ہے، ’’مجھے خوشی ہے کہ فٹ بال کا یہ باب بخوبی اپنے اختتام کو پہنچ گیا ہے۔‘‘ ویسے تو اس حوالے سے خوش ہی ہونا چاہیے کہ آخر کار جرمن قومی ٹیم کا سال اختتام پذیر ہوا لیکن کیا اس کا اختتام ایسے ہی ہونا چاہیے تھا؟
ترک صدر رجب طیب ایردوآن کا اسکینڈل، عالمی کپ کے ابتدائی راؤنڈ میں ہی شکست، جرمن نژاد کھلاڑی میسوت اوزِل کا استعفیٰ، یورپ لیگ میں اول درجے کی ٹیموں سے باہر، اصل میں سال دو ہزار اٹھارہ جرمن فٹ بال ایسوسی ایشن کی تاریخ کا بدترین سال تھا۔ لیکن اس کے باوجود ابھی تک تمام ذمے داران اپنے اپنے عہدوں پر قائم ہیں۔ رواں برس قومی فٹ بال ٹیم کے منیجر اولیور بیئرہوف اور کوچ یوآخم لوو کے تقریباﹰ تمام فیصلے ہی غلط ثابت ہوئے۔
ایک کے بعد ایک غلطی
یہی غلط تھا کہ چار برس پہلے عالمی کپ جیتے والے کھلاڑیوں پر تمام تر انحصار کیا جائے۔ دوران کھیل فٹ بال کو مسلسل اپنے پاس رکھنے والی اسٹریٹیجی بھی غلط ثابت ہوئی۔ ایردوآن اور اوزِل کے مسئلے کو دبانا بھی غلط تھا۔ یہ بھی غلط تھا کہ صرف شریک ٹرینر کو تبدیل کیا گیا اور مرکزی کوچ کو کھلی چھٹی دے دی گئی۔
ہر کسی سے غلطی سرزد ہوتی ہے اور جرمن فٹ بال کے ذمہ داران کو بھی اپنی غلطیاں تسلیم کرنی چاہئیں۔ لیکن اتنے کم عرصے میں اتنی زیادہ غلطیاں اور وہ بھی متکبرانہ انداز میں اور خود کو صحیح ثابت کرتے ہوئے؟ یہ ایک مجموعی غفلت ہے اور ذمہ داران کو جواب دہ بنایا جانا چاہیے۔ اب دونوں ذمہ داران نے وعدہ کیا ہے کہ آئندہ برس سب کچھ بہتر ہو جائے گا۔
اب صرف بہتری کا راستہ ہی بچا ہے
ظاہر ہے اب چیزیں بہتر ہی ہوں گی، اس سے بُرا اب ہو بھی کیا سکتا ہے؟ آئندہ برس جرمن ٹیم ممکنہ طور پر بہتر کھیل کا مظاہرہ کر سکتی ہے کیوں کہ جرمنی میں اچھا فٹ بال کھیلنے والے کھلاڑیوں کی کمی نہیں ہے۔
جرمن کوچ قومی ٹیم کے چار اہم کھلاڑیوں کی جگہ نئے کھلاڑیوں کو فراہم کرنا چاہتے ہیں۔ بظاہر یہ فیصلہ تاخیر سے کیا گیا ہے لیکن کیا اس فیصلے کے بعد آئندہ برس جرمن ٹیم اپنی کھوئی ہوئی طاقت دوبارہ حاصل کر پائے گی؟ کم از کم آئندہ برس اس ٹیم کو کسی زیادہ مشکل صورتحال کا سامنا بھی نہیں ہوگا۔ نہ تو عالمی فٹ بال کپ ہوگا اور اسے نہ ہی کسی نیشنل لیگ کا سامنا کرنا ہوگا۔ یورپ لیگ کی کوالیفیکیشن کے لیے بھی اسے کمزور ٹیموں کے گروپ کا ہی سامنا ہو گا۔
اگر آئندہ برس جرمن ٹیم اور اس کے منیجر واقعی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو پھر ٹیم منیجر اولیور بیئرہوف یہ دعویٰ کرنے میں حق بجانب ہوں گے کہ پرانے باب کا بخوبی اختتام کر دیا گیا ہے۔
ا ا / ا ع