22 مارچ: پانی کا عالمی دن
22 مارچ 2013یہ بات ایشیائی ترقیاتی بینک ADB کی ’ایشین واٹر ڈیویلپمنٹ آؤٹ لُک‘ نامی اُس نئی رپورٹ میں کہی گئی ہے، جس میں اِس براعظم میں محفوظ فراہمیء آب کی صورتِ حال کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق اس خطّے کے ممالک کو سیاسی اور انتظامی سطح پر فوری اقدامات کرتے ہوئے پانی کی فراہمی کے نظاموں کو بہتر بنانا چاہیے۔ ڈوئچے ویلے نے اِس رپورٹ کی تیاری میں شامل دو سرکردہ ماہرین کے ساتھ بات چیت کی ہے، جو پانی سے متعلقہ امور پر خصوصی دسترس رکھتے ہیں۔
اِس سوال کے جواب میں کہ اِس رپورٹ میں نئی چیز کیا ہے، ایان میکن (Ian Makin) کا کہنا تھا کہ اِس میں پہلی مرتبہ جامع طریقے سے پانی کی محفوظ فراہمی کو ماپا گیا ہے اور اس حوالے سے ایشیا اور بحرالکاہل کے اُنچاس ممالک کا آپس میں موازنہ کیا گیا ہے:’’ہم نے اپنی نوعیت کا ایسا پہلا نظام وضع کیا ہے، جس کی مدد سے مختلف ممالک طویل دورانیے تک اپنے ہاں فراہمیء آب کی صورتِ حال پر نظر رکھ سکتے ہیں۔ اس نئے طریقے کے ذریعے ہر گھر میں استعمال ہونے والے پانی سے لے کر آبی آفات تک پانی کے ہر پہلو کا سلامتی کے نقطہء نظر سے مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔‘‘
ایان میکن نے بتایا کہ یہ ایک چار سالہ منصوبہ تھا، جس کے لیے ایشیا اور بحرالکاہل کی دَس تنظیموں نے مل کر کام کیا۔ اِس رپورٹ کے مطابق گھروں میں صاف پانی کی فراہمی غربت کے خاتمے کے لیے ایک اہم اور بنیادی شرط ہے۔ تاہم جہاں اقوام متحدہ کے ہزاریہ اہداف کی مختلف رپورٹوں کے مطابق ایشیا میں 1.7 ارب انسانوں کی صاف پانی تک رسائی ہو بھی چکی ہے، وہاں اِس نئی رپورٹ کے مرتبین میں سے ایک واؤٹر لنکلینز آرینز (Wouter Lincklaens Arriens) اِس دعوے کی نفی کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں:’’ان ہزاریہ اہداف سے متعلقہ رپورٹوں کے مطابق جنوبی ایشیا میں 91 فیصد ایشیائی آبادی کو پانی مل رہا ہے۔ تاہم وہاں بہت سی خواتین اور بچوں کو آج بھی دور دور سے پانی اٹھا اٹھا کر لانا پڑتا ہے، جو ہماری نظر میں پینے کے قابل بھی نہیں ہوتا۔ ہمارے خیال میں صاف پانی کی فراہمی کا معیار یہ ہے کہ پانی کے پائپ آپ کے گھر تک پہنچتے ہوں، جہاں ایک ٹونٹی لگی ہو۔ اس اعتبار سے ہماری نظر میں جنوبی ایشیا میں صرف 23 فیصد شہری ایسے ہیں، جنہیں یہ سہولت حاصل ہے۔‘‘
اِس رپورٹ میں پانچ پہلوؤں سے پانی کی محفوظ فراہمی کا جائزہ لیا گیا ہے، جس میں معیشت اور شہروں کے لیے پانی کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ماحول اور آبی آفات کی صورت میں مقامی آبادی کی مزاحمت کی صلاحیت کو بھی جانچا گیا ہے۔ ہر پہلو کے لیے ’انتہائی غیر محفوظ‘ سے لے کر ’مثالی‘ تک پانچ درجے وضع کیے گئے ہیں۔
ویت نام کی مثال دے کر اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ ملک پانی کی محفوظ فراہمی کے حوالے سے ’کافی غیر محفوظ‘ کے دوسرے درجے پر ہے۔ حکومت کی جانب سے زیادہ سرمایہ کاری کی وجہ سے شہریوں کو پانی کی فراہمی کی صورت حال بہتر ہوئی ہے تاہم معیشت کو پانی کی فراہمی کی صورتِ حال بدستور خراب ہے۔ وہاں کے عوام قدرتی آبی آفات کے خلاف مزاحمت کے حوالے سے بھی اچھی حالت میں نہیں ہیں جبکہ بہت سے دریاؤں میں آلودگی کی وجہ سے یہ ملک ماحولیاتی مسائل کا بھی شکار ہے۔
اِس رپورٹ میں مختلف ممالک کی منصوبہ بندی اور مالیات کی وزارتوں کو بارہ تجاویز دی گئی ہیں، جن کی روشنی میں وہ اپنے اپنے ہاں پانی کی محفوظ فراہمی کو یقینی بنا سکتے ہیں۔ اِن میں پانی کو دوبارہ قابل استعمال بنانے سے لے کر زیر زمین آبی ذخائر کے بہتر انتظام اور پانی کی ترسیل کے زیادہ مؤثر نظاموں تک مختلف تجاویز شامل ہیں۔
دونوں ماہرین نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ اگر یہ ممالک اپنے اپنے ہاں فراہمیء آب کی صورت حال کو بہتر بنانے میں کامیاب نہ ہوئے تو اُن کے ہاں اقتصادی ترقی کا عمل متاثر ہو گا اور معیشتیں آسانی سے بحرانوں کا شکار ہو سکیں گی۔ مزید یہ کہ صحت کا شعبہ خاص طور پر متاثر ہو گا کیونکہ مختلف جائزہ رپورٹوں کے مطابق آلودہ پانی کے باعث ایشیا کے مختلف علاقوں میں زیادہ سے زیادہ انسان کینسر کا شکار ہو رہے ہیں۔
ان ماہرین کے مطابق ایشیا میں جس ملک کو سب سے پہلے پانی کی صورتِ حال کو بہتر بنانے کی ضرورت کا ادراک ہوا ہے، وہ عوامی جمہوریہء چین ہے، جس نے اگلے دس برسوں کے اندر اندر اپنے دریاؤں کو پہنچنے والے نقصانات کی تلافی کرنے اور پانی کے انتظام کو بہتر بنانے کا پروگرام بنایا ہے۔
A.Lehmann/aa/km