یوکرین میں روسی عسکری مداخلت اپنے 100 ویں روز میں داخل
3 جون 2022ابتدا میں روس نے پورے یوکرین پر قبضے کی غرض سے دارالحکومت کییف کی جانب مارچ کیا تھا، تاہم شدید یوکرینی مزاحمت کے بعد روس نے اپنی تمام تر توجہ یوکرین کے مشرقی حصے کی جانب مبذول کی ہوئی ہے۔ اس عسکری محاظ سے یورپ کی تاریخ تبدیل ہو رہی ہے۔ یہ جنگ گزشتہ چند دہائیوں میں یورپ کی سب سے دردناک جنگ بن گئی ہے۔
انسانی جانوں کا ضیاع
یہ واضح نہیں ہے کہ اس جنگ میں کتنے عام شہری مارے گئے ہیں۔ ماسکو کی جانب سے بھی اس حوالے سے بہت محدود معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ یوکرینی صدر وولودومیر زیلنسکی کے مطابق اب تک اس جنگ میں کئی ہزار یوکرینی شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ یوکرینی حکام کے مطابق صرف ماریوپول میں اکیس ہزار عام شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ سیویئرڈونیسک شہر جو اس وقت روس کی تازہ فوجی کارروائی کا مرکز ہے وہاں کے میئر کے مطابق کم از کم پندرہ سو افراد ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔
فوجیوں کی ہلاکت سے متعلق اس ہفتے صدر زیلنسکی کا کہنا تھا کہ ہر روز 60 سے 100یوکرینی فوجی اس جنگ میں ہلاک ہو رہے ہیں جبکہ روزانہ 500 یوکرینی فوجی زخمی ہوتے ہیں۔
ایک روسی جنرل نے تازہ بیان میں بتایا ہے کہ اب تک اس کے 1351 فوجی ہلاک اور 3825 زخمی ہوئے ہیں۔ یوکرینی صدر کے مطابق روسی عسکری محاظ میں روس کے تیس ہزار فوجی مارے گئے ہیں۔ برطانوی انٹیلجنس حکام کے مطابق روس کے قریب 15 ہزار فوجی اس جنگ میں ہلاک ہوئے ہیں۔
بڑے پیمانے پر ہونے والی تباہی
مسلسل گولہ باری، بمباری اور فضائی حملوں نے کئی شہروں اور قصبوں کے بڑے حصوں کو ملبے میں تبدیل کر دیا ہے۔یوکرین کے پارلیمانی کمیشن برائے انسانی حقوق کا کہنا ہے کہ روس کی فوج نے تقریباً 38,000 رہائشی عمارتوں کو تباہ کر دیا ہے جس سے تقریباً 220,000 افراد بے گھر ہو گئے ہیں۔ کنڈرگارٹن، اسکولوں اور یونیورسٹیوں سیمت تقریباً 1,900 تعلیمی اداروں کو نقصان پہنچا ہے۔ ان میں سے 180 مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔
یوکرینی حکام کے مطابق، انفراسٹرکچر کے دیگر نقصانات میں 300 کاریں اور 50 ریل پل، 500 کارخانے اور تقریباً 500 تباہ شدہ ہسپتال شامل ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق یوکرین میں ہسپتالوں، ایمبولینسوں اور طبی کارکنوں پر 296 حملے کیے گئے ہیں۔
یوکرینی حکام کا کہنا ہے کہ روسی حملے سے قبل روس کریمیا سمیت یوکرین کے 7 فیصد علاقے پر قابض تھا۔ صدر زیلنسکی کے مطابق اس وقت روسی فوج یوکرین کے 20 فیصد علاقے کا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہے۔
روس اور یوکرین میں اقتصادی تباہی
مغرب نے تیل اور گیس کے اہم شعبوں سمیت ماسکو کے خلاف بہت سی پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں۔ یورپ روسی توانائی پر انحصار سے خود کو چھڑانا شروع کر رہا ہے۔ یورپی ڈائیلاگ کے اکیڈمک ڈائریکٹر گونٹماخر نے اس ہفتے ایک مقالے میں لکھا ہے کہ روس کو اس وقت 5,000 سے زیادہ پابندیوں کا سامنا ہے اور روس دنیا میں سب سے زیادہ پابندیوں کا سامنا کرنے والا ملک بن چکا ہے۔ مغرب میں روسی کے تقریباً 300 بلین ڈالر مالیت کے سونے اور زرمبادلہ کے ذخائر منجمد کر دیے گئے ہیں۔کییف اسکول آف اکنامکس کے مطابق ایک ہزار سے زائد کمپنیوں نے روس میں اپنی تجارتی سرگرمیاں کافی حد تک کم کر دی ہیں۔
روسی اسٹاک انڈیکس سال کے آغاز کے مقابلے میں تقریباً 40 فیصد گر گیا ہے۔ روسی مرکزی بینک نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ اپریل میں سالانہ افراط زر 17.8 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔
دوسری جانب یوکرین کا کہنا ہے کہ جنگ کی وجہ سے اس کی اقتصادی نمو 35 فیصد کم ہو گئی ہے۔ یوکرین، جو ایک بڑا زرعی پیداوار والا ملک ہے، کا کہنا ہے کہ وہ تقریباً 22 ملین ٹن اناج برآمد کرنے سے قاصر ہے۔یوکرین کے مطابق روس کی جانب سے بندرگاہوں پر ناکہ بندی کے باعث وہ گندم، مکئی اور سورج مکھی کے تیل اور بیجوں کو درآمد نہیں کر پا رہا۔
واضح رہے کہ روس کی جانب سے یوکرین پر حملے کے باعث 6.8 ملین افراد کو کسی نہ کسی موقع پر ملک چھوڑنا پڑا ہے۔ کییف اور دیگر کچھ علاقوں میں جنگی کارروائیوں میں کمی کے باعث قریب 2.2 ملین افراد واپس یوکرین پہنچ گئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس سال 23 مئی تک ملک بھر میں اندرون ملک نقل مکانی کرنے والے افراد کی تعداد 7 ملین سے زیادہ تھی۔
ب ج، ک م (اے پی)