سینکڑوں افغان شہری پاسپورٹ آفس پہنچ گئے
6 اکتوبر 2021پاسپورٹ آفس کھولے جانے کے اعلان کے بعد سیکنڑوں افراد ہر طرح کی رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے اپنی درخواستوں کو کابل کے پاسپورٹ حکام تک پہنچانے کی کوششوں میں دکھائی دیے۔ یہ مناظر طالبان کی جانب سے ملک پر قبضے کے بعد کابل ایئر پورٹ پر جاری بھگدڑ اور بے چینی کی یاد تازہ کرا رہے تھے۔
ہجوم میں موجود احمد شکیب صدیقی کا کہنا تھا، ''مجھے پاسپورٹ نہیں مل سکا، مجھے نہیں معلوم کہ ان حالات میں کیا کریں۔‘‘ صدیقی کا کہنا تھا کہ وہ پاسپورٹ ملنے کے بعد اپنے ایک عزیز کو علاج کے لیے پاکستان لے جانا چاہتے ہیں لیکن وہ مستقبل میں اس ملک کو چھوڑنا بھی چاہتے ہیں، ''ہمیں افغانستان چھوڑنا ہے، یہاں حالات ٹھیک نہیں، ہمارے پاس کوئی کام کوئی نوکری نہیں‘‘۔
طالبان حکام کی جانب سے کہا گیا تھا کہ پاسپورٹ جاری کرنے کا عمل ہفتے سے شروع ہوگا۔ اس سال اگست میں طالبان کی جانب سے ملک پر قابض ہونے کے بعد سے پاسپورٹ آفس بند تھا۔ اس وجہ سے کئی افغان شہری جو بیرون ملک سفر کرنا چاہتے تھے، وہ ملک میں ہی پھنس کر رہ گئے تھے۔
پاسپورٹ بنوانے کے ایک خواہشمند ماہر رسول کا کہنا تھا،''میں پاسپورٹ بنوانے آیا ہوں، لیکن یہاں بہت زیادہ مسائل ہیں، سسٹم کام نہیں کر رہا۔ یہاں کوئی افسر نہیں جو ہمارے سوالوں کا جواب دے، لوگ پریشان ہیں۔‘‘ طالبان کے ترجمان کی جانب سے اس حوالے سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات نہیں دیے گئے۔
طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے افغانستان میں بھوک اور غربت میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ عوام پہلے ہی خشک سالی اور کورونا وبا سے پریشان تھے۔
حالیہ کچھ ماہ میں امن و امان کی خراب صورتحال کے باعث ہزاروں خاندان بے گھر ہو گئے ہیں۔ یہ افراد عارضی کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق اگر اقتصادی بہتری نہیں آتی اور عوام تک تعلیمی اور طبی سہولیات نہیں پہنچائی جاتی تو مزید افغان شہری اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہوں گے۔
طالبان کا کہنا ہے وہ چاہتے ہیں کہ اس بحران میں عالی برادری ان کی مدد کرے۔ عالمی سطح پر اب بھی طالبان کو شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ سابقہ افغان حکومت کے اثاثے منجمد ہیں اور بہت کم ممالک طالبان حکومت کی مالی مدد کر رہے ہیں۔
ب ج، ع ا (روئٹرز)