آبی قلت تنازعات کا بڑھتا سبب، امریکی انٹیلی جنس
23 مارچ 2012رپورٹ کے مطابق ایسا ہونے کا نتیجہ سیاسی عدم استحکام، اقتصادی ترقی میں رکاوٹ اور خوراک کی عالمی منڈیوں کے لیے خطرات کی صورت میں برآمد ہو گا۔ جنوبی ایشیا، شمالی افریقہ اور مشرقِ وُسطیٰ کو ایسے خطے قرار دیا گیا ہے، جنہیں اس سلسلے میں زیادہ چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پانی کی قلت کے باعث ان خطوں کے ممالک خوراک اور توانائی پیدا کرنے کے حوالے سے گونا گوں مسائل کا شکار ہو جائیں گے۔
رپورٹ کے مطابق آئندہ دس برسوں کے دوران پانی کی قلت سے جڑے تنازعات میں اضافہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے تاہم آیا پانی کے مسئلے پر کوئی باقاعدہ جنگ بھی ہو گی، اِس کا امکان کم ہی ہے۔ تاہم رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دَس برس گزرنے کے بعد یہ خطرہ بھی بڑھتا دکھائی دیتا ہے۔ ایک سینئر امریکی انٹیلی جنس عہدیدار نے صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ اِس مسئلے پر کوئی جنگ ہونے یا نہ ہونے کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ مختلف ممالک پانی کے انتظام و انصرام سے متعلق کیا اقدامات اختیار کرتے ہیں اور دیگر ملکوں کے ساتھ پانی کے تنازعات کو کیسے حل کرتے ہیں۔
اگرچہ اس امریکی انٹیلی جنس عہدیدار نے مخصوص خطوں کا نام لینے سے گریز کیا تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ ماضی میں پانی کے معاملے پر پائے جانے والے اختلافات مختلف فریقوں کے مابین کشیدگی کا باعث بھی بنے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ممالک پاکستان اور بھارت کے درمیان آبی وسائل کی تقسیم ایک بڑا تنازعہ ہے۔ اِسی طرح اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان بھی آبی وسائل شدید نزاع کی وجہ بنے ہوئے ہیں۔ شام اور عراق کے درمیان بھی پانی کے ذخائر پر تنازعہ موجود ہے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت اور بنگلہ دیش سے گزرنے والے دریائے برہم پترا اور وسطی ایشیا میں دریائے آمو کے پانی کی تقسیم پر بھی تنازعات جنم لے سکتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق آج کل پوری دُنیا میں زراعت کے شعبے میں تازہ پانی کے استعمال کی شرح 70 فیصد ہے اور پالیسی سازوں کو سب سے زیادہ توجہ اسی بات پر دینی چاہیے کہ زراعت کے شعبے میں پانی کے با کفایت استعمال کو یقینی بنایا جائے۔
رپورٹ: امجد علی / خبر رساں ادارے
ادارت: حماد کیانی