آخری امریکی حراستی مرکز بھی عراقی حکام کے سپرد
16 جولائی 2010بغداد کے ہوائی اڈے کے قریب قائم ’کیمپ کروپر‘ حراستی مرکز نامی اس جیل کی مقامی حکام کو حوالگی کی تقریب میں متعدد امریکی فوجی اہلکاروں نے شرکت کی۔
تقریب میں امریکی فوجی افسروں نے ایک بڑی علامتی چابی عراقی حکام کے سپرد کی۔ اس موقع پر فوجی اہلکاروں نے امید ظاہر کی کہ عراقی انتظام میں وہاں کسی قیدی کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہو گی۔
اس تقریب میں امریکی اہلکاروں نے ماضی میں خود سے سرزد ہونے والی غلطیوں کا اعتراف بھی کیا۔ عراق میں امریکی افواج کے ترجمان میجر جنرل سٹیفن لانزا نے اس جیل کی حوالگی کی تقریب سے قبل صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ امریکی فوج نے ’’عراق میں اپنے تجربے سے بہت کچھ سیکھا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا: ’’مشتبہ عسکریت پسندوں کی گرفتاریوں کے لئے ہمارے آپریشنز اور ممکنہ مزاحمت کے خلاف غیر موثر اقدامات کے تجربے نے ہمیں بہت کچھ سکھایا ہے۔‘‘
اس موقع پر بتایا گیا کہ امریکی فوج نے گزشتہ سات برسوں میں تقریبا 90 ہزار افراد کو گرفتار کیا، جن میں سنی عسکریت پسندوں اور شیعہ ملیشیا گروپوں سے تعلق رکھنے والے جنگجو شامل تھے۔
بغداد میں قائم کیمپ کروپر اور کویت کے ساتھ سرحد کے قریب عراق کے جنوب میں قائم کیمپ بُکہ ایسے حراستی مراکز تھے، جہاں قیدیوں کی ایک بڑی تعداد بغیر کسی بھی مقدمے یا باقاعدہ فرد جرم کے حراست میں رکھی جاتی تھی۔ کیمپ بُکہ کو گزشتہ برس بند کر دیا گیا تھا۔
اس سے قبل امریکی اور برطانوی فوجیوں کے ہاتھوں ابوغریب جیل میں قیدیوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کے بعد 2004ء میں بغداد کی اس جیل کو بھی بند کر دیا گیا تھا۔
عراق میں امریکی فوج کی حراست میں بین الاقوامی خبر رساں ادارے روئٹرز کے ایک فوٹو گرافر سمیت متعدد صحافی بھی رہے، جنہیں کبھی یہ معلوم ہی نہ ہو پایا کہ انہیں کس جرم میں حراست میں لیا گیا تھا۔
سن 2008ء میں ایک سکیورٹی معاہدے کے تحت امریکی فوجیوں سے عراق میں کسی شہری کو حراست میں لینے کا اختیار واپس لے لیا گیا تھا۔ اس معاہدے کا مقصد سن 2011ء میں عراق سے امریکی افواج کے مکمل انخلاء کی راہ ہموار کرنا تھا۔
کیمپ کروپر اگلے دو برس تک عراقی حکام کی زیرنگرانی کام کرے گا۔ تاہم اس حراستی مرکز کا نام تبدیل کر کے کیمپ الکرخ رکھ دیا گیا ہے۔
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : مقبول ملک