آسام: نسلی فسادات میں مزید چار ہلاکتیں
17 نومبر 2012حکام کی جانب سے آج ہفتے کے روز بتایا گیا ہے کہ آج آسام کے مرکزی شہر گوہاٹی سے 230 کلومیٹر دور واقع ضلع کوکرا جھاڑ کے ایک گاؤں Joraibari میں نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کر کے ایک ہی خاندان کے تین افراد اور اُن کے ایک دور کے رشتے دار کو ہلاک کر دیا۔
ایک 14 سالہ نوعمر لڑکا شدید زخمی ہوا ہے۔ اس لڑکے کے والد باسط علی نے بتایا کہ لوگ اُس وقت سونے کی تیای کر رہے تھے، جب کوئی ایک درجن نقاب پوش اُن کے گھروں میں گھس آئے اور اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی:’’میں نے دیکھا کہ چار افراد گولی لگنے سے ہلاک ہو گئے جبکہ میرے بیٹے کو کم از کم تین گولیاں لگی ہیں اور وہ شدید زخمی ہوا ہے۔‘‘ اس واقعے میں دو مزید افراد کے بھی زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔
آسام کے وزیر اعلیٰ ترون گوگوئی نے صحافیوں کو بتایا کہ حالات کافی کشیدہ ہیں اور مقامی بوڈو قبائل اور مسلمان آباد کاروں کے مابین تصادم کو روکنے کے لیے پولیس، فوج اور نیم فوجی دستوں کی بھاری نفری تعینات کی گئی ہے۔
پولیس نے بتایا ہے کہ ضلع کوکرا جھاڑ میں غیر معینہ مدت تک کے لیے کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے اور فوجی اُن مختلف علاقوں میں باغیوں کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں، جہاں حالات خاص طور پر کشیدہ ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ اُس نے آج ہفتے کے روز بوڈو لینڈ پیپلز پارٹی کے ایک رہنما مونو کمار براہما کو اشتعال انگیزی کے الزام میں گرفتار کیا ہے اور اُس کے گھر سے دو اے کے 47 رائفلیں اور گولیاں برآمد کی ہیں۔
بوڈو لینڈ پیپلز پارٹی ریاست آسام میں حکمران کانگریس پارٹی کی حلیف ہے۔ بوڈو لینڈ پیپلز پارٹی کے قائد اور رکن پارلیمان بسواجیت ڈیمیری نے کوکرا جھاڑ سے ٹیلیفون پر اے ایف پی کو بتایا کہ حالات تیزی سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں۔
ایک تنگ زمینی پُل کے ذریعے ملک کے باقی حصے سے جڑے شمال مشرقی بھارت میں گزشتہ کئی عشروں سے نسلی اور علیحدگی پسند گروپوں کے درمیان تنازعات چلے آ رہے ہیں، اگرچہ حال ہی میں کچھ باغیوں نے حکومت کے ساتھ امن مذاکرات بھی شروع کیے ہیں۔
ریاست آسام میں دو دہائیوں سے چلی آ رہی بد امنی کی لپیٹ میں آ کر اب تک دَس ہزار سے زیادہ انسان موت کا شکار ہو چکے ہیں۔ رواں ہفتے کے دوران اب تک ہلاک ہونے والے سبھی مسلمان ہیں۔ اس سال جولائی میں بوڈو قبائل اور مسلمان آباد کاروں کے مابین جھڑپوں میں کم از کم 80 افراد ہلاک اور ساڑھے چار لاکھ بے گھر ہو گئے تھے۔ کوئی ایک لاکھ افراد ابھی بھی ریلیف کیمپوں میں پڑے ہوئے ہیں۔
(aa/ai(afp