آسیان : آخری روز ’بحیرہٴ جنوبی چین‘ کا موضوع ہی چھایا رہا
8 ستمبر 2016امریکی صدر باراک اوباما نے جنوبی ایشیائی ممالک کے سربراہی اجلاس ’آسیان‘ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بیجنگ کو ثالثی عدالت کے فیصلے کا احترام لازمی طور پر کرنا چاہیے۔ اوباما کے بقول دا ہیگ میں قائم اس عدالت کے حکم کی پابندی لازمی ہے کیوں کہ اس وجہ سے علاقائی سلامتی کے لیے خطرات بڑھ رہے ہیں۔
امریکی صدر نے مزید کہا کہ وہ سمجھ سکتے ہیں کہ اس فیصلے نے صورت حال کو کشیدہ کیا ہے۔ انہوں نے تنازعے کے فریقین کو مشورہ دیا کہ وہ اس مسئلے کا مشترکہ حل تلاش کریں،’’جولائی میں اس تاریخ ساز عدالتی حکم نےخطے میں سمندری حقوق کو واضح کرنے میں مدد دی ہے‘‘۔ اس سمندر پر چین کے علاوہ فلپائن، ملائیشیا، ویتنام اور برونائی بھی ملکیت کا دعویٰ رکھتے ہیں۔
ہالینڈ کے شہر دا ہیگ میں اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ عدالت PAC یعنی ’پیرمانَینٹ کورٹ آف آربٹریشن‘ بحیرہٴ جنوبی چین پر چین کے ملکیتی دعووں کو رَد کر دیا تھا۔ اس عدالت نے یہ فیصلہ معدنی خزانوں سے مالا مال اس سمندری علاقے پر ملکیتی حقوق کے حوالے سے چین کے حریف فلپائن کی جانب سے دی جانے والی درخواست پر سنایا تھا۔ اس فیصلے پر چینی حکومت کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا تھا۔
اوباما اور مودی کی ملاقات
آسیان سربراہی اجلاس کے آخری روز اوباما بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے بھی ملے۔ نریندر مودی تحفظ ماحول کے لیے عملی اقدامات اٹھانے میں اوباما پر زور ڈال رہے ہیں، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک کے حوالے سے۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق اس موقع پر اوباما نے بھارت کو نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شمولیت کے معاملے میں اپنے مکمل تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔ یہ گروپ جوہری ٹیکنالوجی کے عدم پھیلاؤ کے قوانین پر عمل درآمد کرانے اور جوہری مواد کی نگرانی کے لیے قائم کیا گیا ہے۔ پاکستان بھارت کو اس گروپ میں شامل کیے جانے کے خلاف ہے۔ مودی نے اپنے خطاب میں کہا،’’دہشت گردی کی دوسرے ملکوں میں منتقلی، بڑھتی ہوئی شدت پسندی اور پھیلتا ہوا تشدد ہمارے معاشرے کی سلامتی کے لیے بڑے خطرات ہیں۔‘‘
دس رکنی تنظیم آسیان کا یہ سربراہی اجلاس لاؤس میں چھ سے آٹھ ستمبر تک لاؤس میں جاری رہا۔