آنگ سان سوچی ايک اور سويلين ايوارڈ سے محروم
8 مارچ 2018امريکا ميں ’دا ہولوکاسٹ ميوزيم‘ کی جانب سے بدھ کے روز اعلان کيا گيا ہے کہ آنگ سان سوچی کو سن 2012 ميں ديا جانے والا ’ايلی ويزل‘ ايوارڈ ان سے واپس ليا جا رہا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران يورپی شہريوں اور بالخصوص يہوديوں کے قتل عام کی روداد بيان کرنے والے اس عجائب گھر نے يہ فيصلہ ميانمار کی راکھين رياست ميں روہنگيا مسلم اقليت کے خلاف جاری مبينہ مظالم کی روک تھام کے ليے عدم اقدامات کے تناظر ميں ليا گيا۔
ہولوکاسٹ ميوزيم روہنگيا مذہبی اقليت کی حالت زار پر پچھلے کچھ عرصے سے آواز بلندکرتا آيا ہے۔ اس سلسلے ميں ميوزيم کی جانب سے پچھلے سال نومبر ميں ايک رپورٹ بھی جاری کی گئی تھی، جس ميں يہ لکھا ہوا تھا کہ ’ميانمار ميں فوج اور بدھ انتہا پسندوں کی جانب سے نسل کشی کے واضح ثبوت موجود ہيں‘۔
اسی ہفتے عجائب گھر کی طرف سے سوچی کو ارسال کردہ خط ميں الزام عائد کيا گيا ہے کہ ميانمار کی حکومت روہنگيا کميونٹی کے خلاف نفرت کو ہوا دے رہی ہے اور اقوام متحدہ کے تفتيش کاروں کی راہ ميں رکاوٹيں ڈال رہی ہے۔ ميوزيم نے اپنی تحرير ميں لکھا ہے کہ اميد تھی کہ سوچی ملکی فوج کی ظالمانہ اور پر تشدد مہم کی مذمت اور اسے روکنے کی ليے کچھ کرتيں تاہم ايسا نہ ہوا۔
دوسری جانب ميانمار حکومت نے اس پيش رفت کے رد عمل ميں کہا ہے کہ ايوارڈ واپس ليے جانے کا فيصلہ ميوزيم کی انتظاميہ کو فراہم غلط معلومات پر مبنی ہے اور اس فيصلے پر سوچی اور ميانمار حکومت کو مايوس ہيں۔
يہ امر اہم ہے کہ آنگ سان سوچی کو آمريت کے خلاف اور جمہوريت کے ليے جدوجہد کرنے کے سبب اپنے ملک ميں اور بين الاقوامی سطح پر غزت کے ساتھ ديکھا جاتا رہا ہے۔ انہيں 1991ء ميں نوبل امن انعام سے نوازا جا چکا ہے۔ سن 2015 ميں ان کی سياسی جماعت نے انتخابات ميں کاميابی حاصل کی اور وہ اس وقت سے اسٹيٹ کونسلر کی حيثيت سے کام کر رہی ہيں۔ ميانمار ميں فوج کا اثر و رسوخ اب بھی واضح ہے۔
ع س/ ع ت، روئٹرز