اجوکا دوستی تھیٹر فیسٹیول ایک انوکھا ثقافتی میلہ
23 نومبر 2024نو سے سترہ نومبر تک الحمرا میں جاری رہنے والے اجوکا دوستی انٹرنیشنل تھیٹر فیسٹیول میں بارہ ممالک کے فن کار شریک ہوئے۔ اسٹیج پر مقامی اور بین الاقوامی فن کاروں کی سرگرمیاں اور لیجنڈری شاہد محمود ندیم کا دست مہربان ہر کسی کی دلچسپی کا مر کز رہا۔ اس فیسٹیول کا افتتاحی دن پنجاب، سندھ، بلوچستان، اور پختون علاقوں کے روایتی رقص کی مختلف پرفارمنسز کے لیے مخصوص تھا جس میں پاکستان کے متنوع ثقافتی ورثے کی خوبصورت عکاسی کی گئی۔
فیسٹیول کے بقیہ دن سوئٹزرلینڈ، امریکہ، انڈونیشیا، اسپین، اٹلی اور انڈیا سمیت دیگر ممالک سے آئے مہمان فنکاروں کے لیے مختص تھے جن میں بعض ڈرامے مقامی فنکاروں کے اشتراک سے پیش کیے گئے۔
اجوکا فیسٹیول کے 'ثقافتی دھماکے‘ میں کیا کچھ تھا؟
اجوکا کے روح رواں شاہد ندیم نے دوستی فیسٹیول کو 'ثقافتی دھماکے‘ سے تشبیہ دیتے ہوئے شائقین سے بھرپور شرکت کی اپیل کی۔ اہل لاہور نے انہیں مایوس نہیں کیا اور الحمرا میں ایک بڑی تعداد فن کو سراہنے کے لیے موجود تھی۔
یوں تو فیسٹیول میں آئے تمام مہمان فنکاروں کو شائقین نے دل کھول کر داد دی لیکن انڈین اداکاروں کے لیے پائی جانے والی گرم جوشی کا لیول الگ تھا۔
پاکستان اور انڈیا کے فنکاروں نے مل کر ڈرامہ 'بلھیا‘ پیش کیا۔ یہ بلھے شاہ کی انسان دوستی اور طبقاتی نظام کے خلاف شاعری کے ذریعے سوال اٹھانے کی کوششوں کو خراج تحسین پیش کرنے کا ایک منفرد طریقہ تھا۔
سرحد پار سے آئے تھیٹر گروپ 'منچ رنگ منچ‘ نے 'مٹی نہ ہووے متریئی‘ پیش کیا جو مشہور جرمن ڈرامہ نگار برٹولٹ بریشٹ کے شہرہ آفاق ڈرامے 'کاکیشین چاک سرکل‘ کا پنجابی ترجمہ ہے۔
اس ڈرامے میں بادشاہ اپنی ملکہ کے کہنے پر ایک بستی کو ختم کر کے وہاں پارک بنانا چاہتا ہے۔ بستی کے مکین شاہی منصوبے سے ناراض ہو کر بغاوت پر اتر آتے ہیں۔
اسی گروپ نے ڈرامہ 'مائی جنداں‘ بھی پیش کیا جس میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سب سے چھوٹی بیوی جند کور کی جد و جہد ، دلیپ سنگھ کی ولی عہدہ اور خالصہ حکمرانوں کی سلطنت پر ڈھیلی پڑتی گرفت اور برطانوی پیش قدمی کے خلاف مزاحمتی کردار کو انتہائی مہارت سے پیش کیا گیا۔ یہ ڈرامہ جند کور کی مضبوط شخصیت کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے کھ تھا جسے تاریخ میں بہت کم جگہ دی گئی ہے۔
ہاتھ سے بنی گڑیا، کس کس کے بچپن کا حصہ ہیں؟
نو روزہ اجوکا فیسٹیول کے آخری روز شو کا آغاز بھارتی شہر چندی گڑھ سے آئے مہمان نیلم مان سنگھ کے مشہور کھیل 'ٹرنک ٹیلز‘سے ہوا۔ جس نے پہلے سین سے ہی تماشائیوں پر سحر طاری کر دیا۔ ٹرنک کی آواز، اکڑ بکڑ بمبے بو، مچھلی جل کی رانی، اک دونی دونی دو دونی چار، پانی پانی ہر جگہ پانی لیکن پین واسطے اک قطرہ نہیں جیسے ناسٹلجیا سے بھرے گہرے فقرے دل میں تیر کی طرح پیوست ہو رہے تھے۔
اس ڈرامے کے ذریعے کسانوں اور پسے ہوئے طبقات سے تعلق رکھنے والے عام افراد کے مسائل کے بارے میں آگاہی دینے کے علاؤہ انسانی رشتوں کے جذباتی پہلو کی عکاسی کی گئی اور کئی آنکھیں اشکبار ہوئیں۔
’ہم سب دوست ہیں، ایک ہیں، فن کی کوئی سرحد نہیں‘
فیسٹیول کے اختتام پر نامور بھارتی ہدایت کار کیول دھالیوال کا کہنا تھا کہ ”ہم سب دوست ہیں، ایک ہیں، فن کی کو ئی سرحد نہیں ہوتی۔ دوستی فیسٹیول میں دونوں ملکوں کی دوستی کا حسین اور عمدہ پہلو بہت پسند آیا۔"
’ٹرنک ٹیلز‘ کے اختتام پر نیلم مان سنگھ کا کہنا تھا کہ ”پاکستان میرے اپنے گھر کی طرح لگتا ہے، مجھے یہاں جو محبت اور گرم جوشی ملتی ہے وہ بے مثال ہے۔ آج ایک بار پھر آپ، پنجاب کے لوگوں نے زبردست مہمان نوازی کا مظاہرہ کیا ہے۔"
فیسٹیول کی ایک خاص بات سگنل ورکشاپ پروڈکشن تھی جسے Monica Hunken اور Leah Bachar نے منعقد کروا یا تھا۔ اس ورکشاپ میں کنیرڈ کالج اور لاہور کالج برائے خواتین کی طالبات پر مشتمل مکمل کاسٹ خواتین پر مشتمل تھی۔
ورکشاپ میں شریک کنیئرڈ کالج کی طالبہ سدرہ اکرم ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتی ہیں، ”یہ ورکشاپ زندگی کا رخ متعین کرنے والے غیر معمولی تجربوں میں سے ایک تجربہ تھا۔ کہانی سنانے کا طریقہ، جسمانی و ذہنی مشق اور تخلیقی اپروچ کے متعلق بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔" سدرہ کے لیے فیسٹیول میں دوسری سب سے شاندار چیز 'پتلی تماشہ‘ تھی جسے انہوں نے پہلی بار دیکھا اور مسحور ہوئے بغیر نہ رہ سکیں۔
اجوکا کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر شاہد ندیم نے شرکاء اور حاضرین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا، ''ہم اس فیسٹیول کی میزبانی کر کے فخر محسوس کرتے ہیں جو تھیٹر کی متحد کرنے والی طاقت کو اجاگر کرتا ہے۔"
اجوکا تھیٹر کے چالیس سال اور تھیٹر کی ترویج میں کردار
1984ء میں ایک تحریک کی شکل میں جنم لینے والا اجوکا تھیٹر رواں برس چالیس سال کا ہو گیا اور حالیہ فیسٹیول اسی سلسلے کا ایک جشن تھا۔
اجوکا کی بنیاد خواتین کے حقوق کی سرگرم رکن مدیحہ گوہر اور لیجنڈ شاہد ندیم نے رکھی۔ اجوکا نے ضیاء الحق کی سیاہ آمریت میں سماجی مسائل کو نوٹنکی کے ذریعے اجاگر کرنے کی روایت قائم کی۔
اجوکا ان موضوعات پر ڈرامے پیش کرتا آیا ہے جو پاکستانی معاشرے میں 'ممنوعہ‘ سمجھے جاتے ہیں۔ بھگت سنگھ اور دارہ شکوہ جیسے کردار ہوں، بسنت جیسا تہوار یا خواتین کی حقوق کی بات، اجوکا نے متنوع موضوعات پر ڈرامے پیش کیے اور متوازی تاریخ لکھی۔ ضیا الحق کے دور میں خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے 1987 ء میں 'بری‘ جیسا ڈرامہ پیش کیا۔
کیا ہمیں اپنا پہناوہ بدلنے کی ضرورت ہے؟
اجوکا اور اس کی بنیاد رکھنے والوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے وجاہت مسعود اپنے مضمون 'شاہد محمود ندیم، ضمیر کا ناقابلِ اصلاح قیدی‘ میں لکھتے ہیں، ”لاہور میں جاہ پرست عالمگیر کے درویش صفت بھائی دارا کی صدا بلند ہوتی ہے تو چندی گڑھ میں بلھے شاہ کی آواز گونجتی ہے۔ کیلی فورنیا کے قصبے وینس میں ٹریپڈ(Trapped ) کے کردار سوال اٹھاتے ہیں کہ ”ہم کس مشکل میں ہیں، نہ ہم طالبان اور القاعدہ کے ساتھ کھڑے ہو سکتے ہیں اور نہ امریکی جارحیت پر خاموش رہ سکتے ہیں۔ ہم اپنا حلیہ تو بدل سکتے ہیں مگر اپنے رنگ، اپنے عقیدے اور اپنی ثقافت کو کیسے کھرچ سکتے ہیں"۔ شاہد محمود ندیم کے ڈراموں اور اجوکا کے فنکاروں نے پاکستان میں تمثیل کی ترویج میں وہی کردار ادا کیا ہے جو انگریزی صحافت میں مظہر علی خان کے ویوپوائنٹ نے ادا کیا تھا۔"