پوٹن سے گفتگو ’خوشگوار ماحول‘ میں ہوتی ہے، شولس
17 ستمبر 2022جرمن نشریاتی ادارے 'ڈوئچلنڈ رنڈفنک‘ کے ساتھ 'انٹرویو آف دا ویک‘ میں بات چیت میں چانسلر شولس نے بتایا کہ ایسے مواقع کہ جہاں ان کا روسی صدر کے ساتھ اختلاف انتہائی نوعیت کا تھایا جہاں دونوں کے موقف میں مکمل طور پر تضاد تھا، ایسے میں بھی دونوں رہنماؤں کے درمیان لب و لہجہ خوشگوار رہا۔ شولس کا یہ انٹرویو اتوار کے شام نشر ہونا ہے، تاہم اس کا متن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو مہیا کیا گیا ہے۔
یوکرین میں جنگ: جرمنی کی حکمت عملی کیا ہے؟
پوٹن یورو یا ڈالر میں گیس کی ادائیگی پر رضامند، جرمن حکومت
شولس کا کہنا تھا کہ حالیہ کچھ عرصے میں ان کی صدر پوٹن کے ساتھ جو گفتگو ہوئی ہے اگر وہ اسے ملا کر دیکھیں تو لازمی طور پر پوٹن کے موقف میں تبدیلی آئی ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ پوٹن کے موقف میں یہ تبديلی غیر معمولی نہیں۔
کئی ماہ کے وقفے کے بعد منگل کو چانسلر شولس اور صدر پوٹن سے ٹیلی فون پر گفتگو ہوئی تھی اور یہ بات چیت کوئی ڈیڑھ گھنٹا جاری رہی۔
اس گفتگو میں شولس نے صدر پوٹن پر زور دیا کہ وہ بات چیت کے ذریعے یوکرینی تنازعے کے حل کی جانب بڑھیں۔ انہوں نے اس سلسلے میں فوری فائربندی اور یوکرینی علاقوں سے روسی فوج کے مکمل انخلا کا مطالبہ کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے ماسکو سے یوکرینی سالمیت اور علاقائی خودمختاری کے مکمل احترام کا بھی کہا۔
اپنے انٹرویو میں چانسلر شولس نے اصرار کیا کہ اب تکنیٹو ممالک نے یوکرین کو مغربی ممالک کے ڈیزائن کردہ جنگی ٹینکنہیں دیے ہیں اور نہ ہی جرمنی اکیلے یوکرین کو ہتھیار فراہم کرے گا، تاہم انہوں نے کہا کہ یوکرین کو جرمنی کی جانب سے عسکری سازوسامان اور دیگر دفاعی اسلحہ بھرپور انداز سے دیا جا رہا ہے۔
چانسلر شولس نے کہا کہ یوکرین کو مہیا کردہ ہتھیاروں خصوصاً جرمن ہتھیاروں کی وجہ سے یوکرینی فوج کو کامیابی مل رہی ہے اور اس سلسلے میں تعاون جاری رکھنا ضروری ہے۔
یوکرینی فوج کی پیش قدمی
مغربی دفاعی حکام اور ماہرین کا کہنا ہے کہ روسی فورسز یوکرین کے شمال مشرق میں نئی دفاعی پوزیشنیں بنانے میں مصروف ہے۔ اس سے قبل روس کی جانب سے بنائی گئی دفاعی پوزیشن یوکرینی فوج نے توڑ دی تھی اور مشرقی علاقوں کی جانب پیش قدمی شروع کر دی تھی۔ حالیہ کچھ عرصے میں یوکرینی فورسز روس کے قبضے سے ہزاروں مربع کلومیٹر کا علاقہ چھڑوا چکی ہیں۔
برطانوی وزارت دفاع کے مطابق روسی فوج کی نئی دفاعی لائن اسکِل دریا اور سواتوو کے درمیان ہے۔ یہ مقام خارکیف سے ڈیڑھ سو کلومیٹر جنوب مشرق میں ہے۔ واضح رہے کہ خارکیف یوکرین کا دوسرا بڑا شہر ہے اور روسی فوج اس شہر پر متعدد مرتبہ حملوں کے باوجود مکمل قبضے میں ناکام رہی تھی۔
دوسری جانب روس کی کوشش ہے کہ وہ اس علاقے کا قبضہ برقرار رکھے کیوں کہ یہ علاقہ روسی فورسز کے زیر قبضہ دیگر یوکرینی علاقوں کے لیے سپلائی روٹ ہے۔ تاہم ماہرین کے مطابق یہ واضح نہیں کہ روسی فورسز یوکرینی فوج کی پیش قدمی روکنے میں کامیاب ہو پائیں گی یا نہیں۔
ع ت / ع س (ڈی پی اے، اے ایف پی)