کیا پاکستانی اعتراف امریکی دباؤ کم کرنے کی کوشش ہے؟
21 نومبر 2018واضح رہے پاکستان کے دفترِ خارجہ نے منگل 20 نومبر کو امریکی سفارت خانے کے قائم مقام سفیر کو بلا کر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹوئیٹ پر احتجاج کیا تھا۔ اس احتجاج کے بعد دفترِخارجہ کی طرف سے جاری کیے جانے والے ایک ہینڈ آؤٹ میں دفترِخارجہ نے کہا کہ یہ پاکستان کی طرف سے انٹیلیجنس تعاون تھا جس نے اسامہ بن لادن کی کمیں گاہ کا پتہ لگانے کے لیے ابتدائی ثبوت دیے۔ یہ بیان صدر ٹرمپ کی طرف سے اس ٹوئیٹ کے بعد آیا جس میں امریکی صدر نے اسلام آباد کو واشنگٹن کے ساتھ تعاون نہ کرنے کا طعنہ دیا تھا۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ پاکستان نے افغانستان اور اسامہ کے مسئلے پر امریکا سے تعاون نہیں کیا۔ ٹرمپ کی ٹوئیٹ کے بعد عمران خان نے بھی ایک سخت بیان جاری کیا جب کہ پی ٹی آئی کی رہنما شیریں مزاری نے بھی اس پر سخت ردِ عمل دیا تھا۔
لیکن کئی حلقوں کا خیال ہے کہ پاکستان نے یہ اعتراف اس موقع پر اس لیے کیا ہے کہ اسلام آباد پر امریکا کا دباو بڑھتا جارہا ہے، جس سے حکومت کو نقصان ہو سکتا ہے۔ سابق وزیرِ جہاز رانی و بندرگاہ سینیٹر میر حاصل بزنجو کا خیال ہے کہ آنے والے مہینوں میں پاکستان پر مزید دباؤ آئے گا: ’’ٹرمپ کی جب پہلی ٹوئیٹ کچھ عرصہ پہلے آئی تھی، میں نے اسی وقت کہا تھا کہ اس ٹوئیٹ کو بڑے سنجیدہ انداز میں لیا جانا چاہیے لیکن حکومت یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ امریکی دباؤ کی پرواہ نہیں کرتی اور اس پر پریشان بھی نہیں ہے لیکن میرے خیال میں اس دباؤ پر پریشانی بہت ہے اور امریکی ناراضگی پر تشویش بھی۔ میرے خیال میں تو جو آئی ایم ایف سے مذاکرات کامیاب نہیں ہو پا رہے، اس کی بھی ایک وجہ امریکی ناراضی اور دباؤ ہے۔ اس موقع پر اس اعتراف کے سامنے آنے کامطلب یہ ہے کہ ہمیں محسوس ہو رہا ہے کہ ہمارے عدم تعاون کے تصور کی وجہ سے ہم پر آنے والے دنوں اور ہفتوں میں مزید دباؤ آئے گا، تو اس کا سدِ باب کرنے کے لیے یہ بیان جاری کیا گیا ہے۔‘‘
اسلام آباد کی پریسٹن یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ پروفیسر ڈاکٹر امان میمن حاصل بزنجو کی اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں: ’’ملک شدید مالی بحران کا شکار ہے۔ ہمیں آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ کی ضرورت ہے اور اس پر سب سے زیادہ اثر ورسوخ امریکا کا ہے۔ اسلام آباد محسوس کر رہا ہے کہ اگر اس عدم تعاون کے تصور کو ختم نہیں کیا گیا تو پاکستان کے لیے شدید مالی اور عسکری مشکلات آسکتی ہیں۔ ہم پر پابندیاں بھی لگ سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے بلیک لسٹ ہونے کے بھی خطرات ہیں۔ پہلے عمران خان نے سخت بیانات دیے لیکن بعد میں یہ اعتراف کر کے اسلام آباد نے بات چیت اور تعاون کا دروازہ کھولے رکھنے کی کوشش کی ہے۔‘‘
لیکن کچھ حلقوں کے خیال میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اورپینٹاگون کے تاریخی تعلقات ہیں۔ دونوں سرد جنگ میں اتحادی رہے ہیں۔ اس اتحاد میں تھوڑی سے دراڑ پڑی ہے، جس کی مرمت کرنے کے لیے یہ بیان جاری کیا گیا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر تاج حیدر کے خیال میں یہ بیان اسلام آباد کی طرف سے ایک بار پھر امریکا کی گڈ بک میں آنے کی کوشش ہے: ’’یہ تصور صحیح نہیں ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور امریکا کے تعلقات ختم ہو سکتے ہیں۔ ہم ماضی میں بھی ان کے قریب رہے ہیں اور سخت بیانات کو ایک طرف رکھتے ہوئے اگر ہم آج کے اقدامات کا جائزہ لیں تو ہم اب بھی ان کے قریب ہیں۔ اس اعتراف کے ذریعے ہم مزید قربت چاہتے ہیں۔‘‘
انہوں نے سوال کیا کہ کیاپاکستان تیس سے زیادہ مسلم ممالک کے فوجی اتحاد کا حصہ نہیں ہے، جس کو امریکی آشیر باد حاصل ہے: ’’کیا ہم نے یمن میں ہونے والی بربریت کی مذمت کی ہے؟ تو ہم اب بھی امریکا کو خوش کرنا چاہتے ہیں اور اس کو راضی رکھنا چاہتے ہیں۔ ہم نے ماضی میں بھی ایسا کیا ہے اور ہم اب بھی ایسا ہی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘
تاج حیدر نے کہا کہ یہ اعتراف پہلے کبھی نہیں کیا گیا: ’’میں نے یہ براہ راست نہیں سنا لیکن مجھے بتایا گیا کہ ہماری حکومت نے ایجنسیوں سے پوچھا تھا کہ کیا اسامہ کو چھپانے میں ان کا کوئی کردار
تھا، تو انہوں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ نہ ہی اس طرح کے کسی اعتراف کو ہم نے کبھی سینیٹ میں سنا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی، ہمارے اقتدار اعلیٰ کی بے حرمتی ہوئی، ہمیں بین الاقوامی طور پر شرمندگی ہوئی۔ ان سارے سوالات کا جواب کون دے گا۔‘‘
تاہم جنرل امجد شعیب کے خیال میں یہ کوئی نیا انکشاف نہیں ہے: ’’دفترِ خارجہ نے یہ پہلی مرتبہ اعتراف کیا ہوگا لیکن آئی ایس پی آر یہ پہلے کہہ چکا ہے اور صدر اوباما نے بھی پاکستانی تعاون کا اعتراف کیا تھا۔ ہم نے اسامہ کے دست راست کی فون کالز کا ریکارڈ دیا تھا اور جب اس نے وہ سم دوبارہ استعمال کی تو امریکا کو اس تک پہنچنے میں آسانی ہوئی۔‘‘