’اسانج کو پناہ نہیں دے سکتے‘
3 جولائی 2015آسانج تین برس سے لندن میں ایکواڈور کے سفارت خانے میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ انہیں خود پر لگے مبینہ جنسی جرائم کے الزامات کے تحت سویڈن کے حوالے کر دیے جانے کا خوف ہے۔
فرانس کو اسانج کی طرف سے ایک خط موصول ہوا جس کے بعد پیرس میں فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے،’’ اسانج کی قانونی اور مادی صورتحال کا گہرائی سے جائزہ لینے کے بعد فرانسیسی صدر نے کہا ہے کہ ان کا ملک اسانج کو پناہ نہیں دے سکتا‘‘۔
اس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اسانج کو اس وقت کسی فوری خطرات کا سامنا نہیں ہے اور یہ گرفتاری کے یورپی مینڈیٹ کا بھی ہدف ہیں۔
فرانسیسی اخبار لے مونڈ نے قبل ازاں اسانج کا اولانڈ کے نام وہ کُھلا خط شائع کیا جس میں انہوں نے تحریر کیا تھا کہ اُن کی اہلیہ کی جان کو خطرات لاحق ہیں تاہم اسانج کی پناہ کی درخواست پر فرانسیسی صدر کا کہنا تھا کہ پیرس اسانج کی درخواست منظور نہیں کر سکتا۔
جمعے کی صبح فرانسیسی اخبار میں شائع ہونے والے خط میں اسانج نے خود کو ایک صحافی کہتے ہوئے تحریرکیا کہ اُن کی پیشہ ورانہ سرگرمیوں کے نتیجے میں انہیں امریکا کے تعقب اور دھمکیوں کا سامنا ہے۔ اسانج کے بقول امریکی حکام انہیں جان سے مار دینے کی دھمکی دے رہے ہیں۔
اسانج کی یہ درخواست ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب جمعے کو وہ 44 برس کے ہو گئے ہیں۔ سابقہ کمپیوٹر ہیکر کو خطرہ ہے کہ سویڈن کی حوالگی کا نتیجہ یہ نکل سکتا ہے کہ امریکی فوج اور سفارتی دستاویزات کو منظر عام پر لانے یا وکی لیکس کی اشاعت کی پاداش میں اُسے امریکا منتقل کر دیا جائے گا جہاں اُسے مقدمے کا سامنا کرنا ہوگا۔
واضح رہے کہ آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے وکی لیکس کے بانی جولیان اسانج کی جون میں سویڈن کے قومی دفتر استغاثہ کے ماہرین کی ایک ٹیم کے ساتھ ملاقات ہونا تھی لیکن خود اسانج کے دعووں کے مطابق یہ ملاقات اچانک منسوخ کر دی گئی تھی۔
اسانج کو سویڈن میں اپنے خلاف دو خواتین کی طرف سے جنسی زیادتی کے الزامات کے تحت دائر کردہ مقدمات کا سامنا ہے اور اسی لیے وہ سویڈش حکام کو مطلوب ہیں۔ ان میں سے ایک مقدمے میں ایک خاتون نے دعویٰ کر رکھا ہے کہ اسانج نے ان پر جنسی حملہ کیا تھا جبکہ دوسرے مقدمے میں متعلقہ خاتون کا دعویٰ ہے کہ وکی لیکس کے بانی اور عالمگیر شہرت کے حامل اسانج نے انہیں مبینہ طور پر ریپ کیا تھا۔
اسانج نے شروع میں برطانیہ میں سیاسی پناہ کی درخواست دی تھی، جو مسترد کر دی گئی تھی۔ اس کے بعد اسی بارے میں ان کی اپیل بھی رد ہو گئی تو برطانیہ سے ملک بدر کر کے سویڈن بھیجے جانے کے خطرے کی بناء پر انہوں نے لندن میں ایکواڈور کے سفارت خانے میں پناہ لے لی تھی۔