اسد کو ہٹانا ترجیح نہیں رہی، ماکروں
22 جون 2017نئے فرانسیسی صدر نے کہا کہ صدر اسد کو ہٹانے کی بجائے شامی تنازعے میں، جس کا آغاز 2011ء میں شامی صدر کے خلاف شروع ہونے والے احتجاج سے ہوا تھا مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتا گیا، بین الاقوامی برادری کی اولین ترجیج داعش جیسے شدت پسند گروپوں کے خلاف جنگ ہے۔
ایمانوئل ماکروں نے متعدد یورپی اخباروں کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران کہا، ’’اس سوال میں جو اصل تبدیلی میں نے کی ہے وہ یہ کہ میں نے کبھی نہیں کہا کہ بشارالاسد کو ہٹانا ہر چیز کے لیے ابتدائی شرط ہے۔‘‘
گزشتہ مہینے عہدہ صدارت سنبھالنے والےایمانوئل ماکروں کا اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے مزید کہنا تھا، ’’کیونکہ اب تک کوئی بھی مجھے ان کے قانونی جانشیں کے بارے میں نہیں بتا سکا۔‘‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس انٹرویو کے دوران شام کے بارے میں اپنی پالیسی کا اظہار کرتے ہوئے فرانسیسی صدر کا کہنا تھا، ’’میری ترجیح واضح ہے: اول، دہشت گرد گروپوں کے خلاف مکمل جنگ۔ یہ ہمارے دشمن ہیں۔۔۔ ہمیں ان کو ختم کرنے کے لیے ہر ایک کا تعاون چاہیے، خاص طور پر روس کا۔ دوئم: شام میں استحکام، کیونکہ میں ایک ناکام ریاست نہیں چاہتا۔‘‘
ماکروں کے مطابق بین الاقوامی برادری نے یہ سوچ کر ایک ’’اجتماعی غلطی‘‘ کی کہ اس تنازعے کو محض ’’فوجی طاقت کے ذریعے‘‘ حل کیا جا سکتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’’میرا بہت زیادہ یقین ہے کہ ہمیں اس حوالے سے ایک سیاسی اور سفارتی طریقہ کار درکار ہے۔‘‘
تاہم انہوں نے اپنی یہ تنبیہ بھی دہرائی کہ شام میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال یا مشکلات میں گِھرے شامی شہریوں تک امداد پہنچانے کے لیے قائم کیے گئے ’ہیومینیٹیرئن کوریڈورز‘ کی خلاف ورزی ’’سرخ لکیریں‘‘ ہیں اور اگر ان کی خلاف ورزی ہوئی تو فرانس تنہا بھی اس کے ردعمل میں کارروائی کر سکتا ہے۔
شامی تنازعے کے آغاز سے اب تک فرانس بھی مغربی اقوام کے ساتھ اس بات پر زور دیتا آیا ہے کہ شامی صدر بشارالاسد کو اقتدار سے الگ ہونا ہی ہو گا۔ چھ برس سے زائد عرصے سے جاری اس تنازعے میں ساڑھے تین لاکھ سے زائد شامی ہلاک جبکہ کئی ملین اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔