اسلام آباد لٹریچر فیسٹیول دیگر ادبی میلوں سے مختلف کیسے؟
16 نومبر 2024رواں برس 'شہرِاقتدار‘ کہلائے جانے والے پاکستانی دارالحکومت میں منعقدہ اسلام آباد لٹریچر فیسٹول کا مرکزی خیال تھا: 'پائیداری: الفاظ خیالات کو تبدیل کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔‘ مگر بعض ترقی پسند حلقے سوال اٹھا رہے ہیں کہ ادیبوں کی نوجوان نسل اور اختلافی آوازوں کو مائنس کر کے صحت مند مکالمہ کیسے تشکیل یا پائیدار معاشرے کا خواب کیسے ممکن ہے؟
گندھارا کلب ایف نائن پارک میں منعقدہ تین روزہ اسلام آباد لٹریچر فیسٹیول دس نومبر کو اختتام پذیر ہوا، جس میں تقریباً پچپن سیشن ہوئے۔ اکادمی ادبیات کی چیئرپرسن ڈاکٹر نجیبہ عارف نے ایک سیشن میں مرکزی مقرر کے طور پر کہا، ”ادب ہمارے نقطہ نظر کو تشکیل دیتا ہے اور ہمیں دوسروں کی آنکھوں سے دنیا دیکھنے کا موقع دیتا ہے۔"
آکسفورڈ یونیورسٹی پریس پاکستان کے منیجنگ ڈائریکٹر ارشد سعید حسین کا کہنا تھا، ”ہمارا جذبہ اور عزم اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ادب ایک ترقی پسند اور منصفانہ معاشرے کی جانب تبدیلی کو آگے بڑھاتا رہے۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں آپ جیسے دوستوں کا ایک بڑھتا ہوا حلقہ ملا ہے جو ہمارے مشن کو تقویت دیتا ہے۔"
’اختلافی آوازوں کے بغیر ادب اور لٹریچر فیسٹیول کا تصور مضحکہ خیز لگتا ہے‘
اسلام آباد لٹریچر فیسٹیول کو سوشل میڈیا اور بعض ادبی حلقوں میں مسلسل تنقید کا سامنا ہے کہ 'اختلافی آوازوں‘ کو نہ ہونے کے برابر نمائندگی دی گئی۔ اگرچہ حامد خان، افراسیاب خٹک اور فرحت اللہ بابر سٹیج پر نظر آئے لیکن یہ نمائندگی بہت معمولی نظر آتی ہے۔ معروف شاعرہ کشور ناہید ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا ، ”پورے معاشرے میں اختلافی اور تنقیدی آوازوں کی گنجائش گھٹ رہی ہے۔ سیاسی، سماجی اور صنفی اعتبار سے مختلف نقطہ نظر رکھنے والوں کو سٹیج دیا جانا چاہیے تاکہ وہ اپنی بات کہہ سکیں۔"
معروف شاعر اور عوامی دانشور اختر عثمان ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں، ”ادب کا ایک بنیادی کام جامد تصورات کو تہہ سے ہلانا اور پاپولر یا نافذ نقطہ نظر کو چیلنج کرنا ہے۔ یہ چیز فیسٹیول میں نظر نہیں آئی۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’اگر ایک ہی طرح سے سوچنے والے اکٹھے کر لینے ہیں تو مکالمہ کیا ہو گا؟ بات آگے کیسے بڑھے گی؟ ادیب کو معاصر سیاسی و سماجی صورتحال پر اپنی بات کرنی چاہیے، اختلافی نقطہ آنا آنا چاہیے اور اسے سنا جانا چاہیے۔ اختلافی آوازوں کے بغیر ادب اور لٹریچر فیسٹیول کا تصور مضحکہ خیز لگتا ہے۔"
کیا ادیب کو اپنے اردگرد ہونے والی سیاسی و سماجی تبدیلیوں پر بات نہیں کرنی چاہیے؟ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے معروف شاعر حارث خلیق کہتے ہیں، ”بالکل کرنی چاہیے، ادیب اپنے معاشرے کا نبض شناس ہے، وہ سیاسی و سماجی صورتحال پر گہرا اور متنوع تجزیہ پیش کر سکتا ہے اور اسے پلیٹ فارم مہیا کیا جانا چاہیے۔"
نوجوان ادیبوں کی نمائندگی کم کیوں؟
اسلام آباد لٹریچر فیسٹیول میں اختلافی آوازوں کے ساتھ ساتھ نوجوان ادیبوں کی نمائندگی بھی بہت کم رہی۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے نوجوان شاعر اور محقق عدنان بشیر کہتے ہیں، ”ایک معروف خیال ہے کہ اینکرز اور میڈیا کے دو چار بڑے نام بلوا لو جس سے زیادہ تعداد میں لوگ آئیں گے اور میڈیا کوریج بھی ملے گی۔ یہ پرانے دور کی باتیں ہیں، اب صورتحال تبدیل ہو چکی ہے۔
”اب نوجوان شاعر خود سیلبریٹیز ہیں، ان کے نام پر آپ بڑے سے بڑا آڈیٹوریم بھر سکتے ہیں۔ جبکہ یہ نوجوان نسل سوشل میڈیا پر بہت متحرک ہے جس سے کوریج کی کمی پوری ہو جاتی ہے۔ لوگ ایک جیسے مواد سے اکتا کر ادبی میلے میں آ رہے ہیں اور آپ پھر انہیں اسی طرح کے سیاسی پروگرام میں بٹھا دیتے ہیں۔ آپ نوجوانوں سے مکالمہ کریں، تازہ خیالات پہ بات ہو تاکہ ٹی وی سکرین پر ایک جیسی چیزیں سے اکتائے ہوئے لوگوں کو کچھ نیا یا مختلف دیکھنے سننے کو ملے۔"
حارث خلیق کو آکسفورڈ لٹریچر فیسٹیول کی انتظامیہ کے ساتھ قریب سے کام کرنے کا تجربہ ہے۔ وہ کہتے ہیں، ”ہمیں ایک بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ انگریزی کتابوں کی اشاعت کا ادارہ ہے جس کا اپنا مزاج ہے۔ آپ دیکھیں بہت سے کتابوں کی تقریب رونمائی ہوئی۔ انگریزی اور اردو کے ادیبوں اور طلبہ و طالبات کو آپس میں ملنے اور بات چیت کا موقع ملا۔ جہاں تک نوجوان ادیبوں کی کم نمائندگی کی بات ہے تو وہ پہلے بھی شرکت کرتے رہے اور آئندہ اسے زیادہ بھرپور بنانے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔"
اشرافیہ کی چھاپ: اسلام آباد لٹریچر فیسٹول دیگر ادبی میلوں سے کیسے مختلف ہے؟
اسلام آباد میں ہونے والی تقریبات میں اشرفیہ کا غلبہ عام طور پر موضوع بحث بنتا رہتا ہے۔ معروف فکشن رائٹر اور شاعر علی اکبر ناطق ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتے ہیں، ” یہ اس شہر کا مزاج ہے، یہاں کے سرکلز میں اٹھنے بیٹھنے کے لیے آپ کو انگریزی میں گفتگو اور اسٹیبلشمنٹ کی مدح سرائی کا فن آنا چاہیے۔ یہ چھاپ ادبی میلوں میں بھی نظر آتی ہے۔ یہاں تنوع نہیں ایک جیسا چورن بیچنے والوں کی ہٹیاں کھلی ہوتی ہیں جہاں گاہک نایاب ہوتا ہے۔“
ان کا مزید کہنا تھا، ”یونیورسٹیوں کے پروفیسر اور ادیب دو مختلف ہی نہیں متضاد چیزیں ہیں۔ ادارے خاص طور پر ہماری تعلیمی ادارے ایسے پرزے تیار کرتے ہیں جو رائج نظام میں فٹ بیٹھ سکیں۔ اب یہاں کے ملازمین بیچارے کیا شعوری اور تنقیدی بات کریں گے۔"
معروف افسانہ نگار عرفان عرفی ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتے ہیں، ”چھوٹے شہروں میں ہونے والے ادبی میلے عام آدمی اور زمین سے جڑے ہوتے ہیں۔ وہاں مقامی کلچر حاوی ہوتا ہے جبکہ اسلام آباد میں وی آئی پی کلچر۔"